اسلام آباد —
الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات کے دوران امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے صرف حساس پولنگ اسٹیشنز پر فوج کو تعینات کیا جائے گا جبکہ ملک بھر میں اسلحہ لائسنسز کے اجراء پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ فوج کی تعیناتی صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلحہ لائسنسز کے اجراء پر پابندی انتخابات تک برقرار رہے گی۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ضلعی سطح پر سکیورٹی پلان بنائے جائیں گے۔
چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی زیر صدارت اجلاس میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری اور پولیس کے سربراہان کے علاوہ وزارت دفاع، خارجہ اور داخلہ کے سیکرٹری شامل تھے۔
اجلاس کے آغاز پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ملک میں آزاد اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے امن و امان کی صورتحال بہتر ہونا ناگزیر ہے۔
’’کہا جاتا ہے کہ اگر امن و امان کی صورتحال برقرار رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ انتخابات شفاف اور آزاد نا ہوں اور اس کے لیے آپ ہماری مدد کریں گے کہ کس طرح یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ انتخابات سے 15 دن پہلے افغان مہاجرین کی نقل و حرکت پر پابندی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے لیے غیر ملکی مبصرین کا پاکستان میں قیام صرف ایک ہفتے کا ہوگا اور ان کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بھی بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دریں اثناء وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے فیصل آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ اسمبلیوں کی معیاد پوری ہونے کے بعد 16 مارچ کو عبوری حکومت آ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد عبوری سیٹ اپ آئے گا۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ متفقہ طور پر مقرر چیف الیکشن کمشنر جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد انتخابات کروانے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات رواں سال مئی میں متوقع ہیں۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ علامہ طاہرالقادری کی جانب سے چودہ جنوری کے لانگ مارچ کے اعلان سے حکومت یا جمہوری نظام کوئی خظرہ نہیں۔ انہوں نے کہا تحریر اسکوائر وہاں بنتے ہیں جہاں جمہوریت نہیں ہوتی۔
’’طاہرالقادری تو انتخابات میں فریق ہی نہیں۔ وہ تو انتخابات ہی نہیں لڑ رہے۔ اگر الیکشن لڑنا تھے تو انہیں پہلے پاکستان آنا چاہیئے تھا۔‘‘
ملک میں جاری دہشت گردی اور دیگر پرتشدد واقعات کے پیش نظر آئندہ انتخابات کے انعقاد پرشکوک و شبہات کیے جاتے ہیں۔ تاہم حکومت بار ہا انتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات کو رد کر چکی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ فوج کی تعیناتی صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلحہ لائسنسز کے اجراء پر پابندی انتخابات تک برقرار رہے گی۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ضلعی سطح پر سکیورٹی پلان بنائے جائیں گے۔
چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی زیر صدارت اجلاس میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری اور پولیس کے سربراہان کے علاوہ وزارت دفاع، خارجہ اور داخلہ کے سیکرٹری شامل تھے۔
اجلاس کے آغاز پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ملک میں آزاد اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے امن و امان کی صورتحال بہتر ہونا ناگزیر ہے۔
’’کہا جاتا ہے کہ اگر امن و امان کی صورتحال برقرار رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ انتخابات شفاف اور آزاد نا ہوں اور اس کے لیے آپ ہماری مدد کریں گے کہ کس طرح یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ انتخابات سے 15 دن پہلے افغان مہاجرین کی نقل و حرکت پر پابندی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے لیے غیر ملکی مبصرین کا پاکستان میں قیام صرف ایک ہفتے کا ہوگا اور ان کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بھی بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دریں اثناء وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے فیصل آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ اسمبلیوں کی معیاد پوری ہونے کے بعد 16 مارچ کو عبوری حکومت آ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد عبوری سیٹ اپ آئے گا۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ متفقہ طور پر مقرر چیف الیکشن کمشنر جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد انتخابات کروانے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات رواں سال مئی میں متوقع ہیں۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ علامہ طاہرالقادری کی جانب سے چودہ جنوری کے لانگ مارچ کے اعلان سے حکومت یا جمہوری نظام کوئی خظرہ نہیں۔ انہوں نے کہا تحریر اسکوائر وہاں بنتے ہیں جہاں جمہوریت نہیں ہوتی۔
’’طاہرالقادری تو انتخابات میں فریق ہی نہیں۔ وہ تو انتخابات ہی نہیں لڑ رہے۔ اگر الیکشن لڑنا تھے تو انہیں پہلے پاکستان آنا چاہیئے تھا۔‘‘
ملک میں جاری دہشت گردی اور دیگر پرتشدد واقعات کے پیش نظر آئندہ انتخابات کے انعقاد پرشکوک و شبہات کیے جاتے ہیں۔ تاہم حکومت بار ہا انتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات کو رد کر چکی ہے۔