پاکستان میں ایک بار پھر مردم شماری کروانے کا عمل موخر کر دیا گیا ہے جس کی وجہ درکار فوجی اہلکاروں کی عدم دستیابی اور اس کی ساکھ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے جیسے اقدام بتائے گئے ہیں۔
جمعہ کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں باہمی مشاورت سے مردم شماری کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سرکاری بیان کے مطابق اس ضمن میں نئی تاریخ صوبائی حکومتوں اور مسلح افواج کی مشاورت سے طے کی جائے گی۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے سیکرٹری شاہد حسین نے اجلاس کو بتایا کہ چونکہ مردم شماری کے عمل کی شفافیت منصوبہ بندی کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے لہذا تقریباً تین لاکھ فوجی اہلکار اس عمل میں گھر گھر جانے والے کارکنوں کے تحفظ اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے درکار ہیں جن کی خدمات سردست فوج کی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باعث ملنا ممکن نہیں۔
علاوہ ازیں مرحلہ وار مردم شماری کروانا بین الاقوامی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا جس سے اس کی شفافیت اور درستگی پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں سماجی و اقتصادی ماہرین یہ کہتے آئے ہیں کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ملکی تعمیر و ترقی کے لیے مردم شماری کا آئین کے مطابق ہر دس سال بعد ہونا انتہائی ضروری ہے۔
ملک میں پہلی مردم شماری 1951ء دوسری 1961ء، تیسری 1972، اور چوتھی 1981ء میں ہوئی۔ اس کے بعد آئینی طور پر مردم شماری 1991ء میں ہونا تھی جو کہ 1998ء میں کی جا سکی۔
ماہر اقتصادیات اور جامعہ کراچی کے شعبہ تدریس سے وابستہ اکبر زیدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر ترقی و خوشحالی کی منصوبہ بندی ممکن ہے بصورت دیگر اندازوں سے چلایا جانے والا کام نہ تو دیرپا ہوتا ہےاور نہ ہی سودمند۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوریت اور سیاسی عمل کے استحکام کے لیے بھی مردم شماری اہمیت کی حامل ہے کیونکہ آبادی کے اعتبار سے حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں اور عوام کو ان کی نمائندگی کا حق صحیح معنوں میں مل سکتا ہے۔
کچھ نسلی اور مذہبی برادریاں یہ تحفظات ظاہر کرتی آئی ہیں کہ انھیں ان کی آبادی کے لحاظ سے سیاسی نمائندگی اور ملک کے وسائل میں حصہ نہیں دیا جاتا۔
مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے آبادی کی صحیح تعداد معلوم نہ ہونے کی ایک جھلک ملک کے سیاسی رہنماؤں کی تقاریر اور بیانات میں بھی اکثر دکھائی دیتی ہے جس میں بعض ملک کے 18 کروڑ عوام کو مخاطب کرتے ہیں تو کچھ پاکستان کو بیس کروڑ لوگوں کا ملک قرار دیتے ہیں۔