اسلام آباد —
ملک میں عام انتخابات کے سرکاری نتائج بھی تقریباً مکمل ہونے والے ہیں اور مرکز اور صوبوں میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعتیں حکومت سازی کے لیے مشاورت اور رابطوں میں مصروف ہے۔
دوسری جانب جہاں بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار اور اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کو مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے وہیں سابقہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے۔
سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو غیر حتمی نتائج کے مطابق انتخابات میں میں بری طرح ناکامی ہوئی اور اس کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت کئی اہم سیاسی رہنما اپنی نشستیں بچانے میں ناکام رہے۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابات میں شکست تسلیم کیے جانے کے ساتھ ہی مختلف رہنماؤں کی طرف سے مستعفی ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
جماعت کے سینیئر وائس چیئرمین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پارٹی عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے کہا کہ وہ انتخابات کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
’’اگر کہیں کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی اور کوئی ذمہ داری ہے تو کسی نہ کسی میں یہ جرات ہونی چاہیے کہ وہ اسے قبول اور میں اسے قبول کرتے ہوئے جماعت کے سینیئر وائس چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔‘‘
منگل کو پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماء اور ممتاز قانون دان اعتزاز احسن نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والی اپنی اہلیہ کی شکست پر کہا کہ وہ سینٹ کی نشست سے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں پنجاب کے گورنر مقرر کیے جانے والے مخدوم احمد محمود نے بھی یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئینی عہدیداروں کا چناؤ نئی حکومت کی صوابدید ہے۔
مخدوم احمد محمود گورنر مقرر ہونے سے قبل مسلم لیگ فنکشنل سے وابستہ تھے لیکن پھر انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ گورنر کے عہدے کے ساتھ ساتھ انھوں نے پارلیمانی سیاست سے بھی کنارہ کشی کا اعلان کیا۔
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صوبائی صدر مقرر ہونے والے منظور وٹو بھی جماعت کے اس عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ انھوں یہ عہدہ دیتے ہوئے یہ فریضہ سونپا گیا تھا کہ وہ روایتی طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں پیپلز پارٹی کو فعال اور مضبوط بنائیں گے۔
منگل کو مستعفی ہوتے ہوئے منظور وٹو کا کہنا تھا کہ صوبے میں ان کی جماعت کی ناکامی کے بعد ان کے پاس یہ عہدہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
مرکزی میں سابقہ حکومتی اتحاد اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں سابقہ حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرچکی ہے۔
مسلم لیگ ق کے رہنماؤں نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب جہاں بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار اور اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کو مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے وہیں سابقہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے۔
سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو غیر حتمی نتائج کے مطابق انتخابات میں میں بری طرح ناکامی ہوئی اور اس کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت کئی اہم سیاسی رہنما اپنی نشستیں بچانے میں ناکام رہے۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابات میں شکست تسلیم کیے جانے کے ساتھ ہی مختلف رہنماؤں کی طرف سے مستعفی ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
جماعت کے سینیئر وائس چیئرمین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پارٹی عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے کہا کہ وہ انتخابات کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
’’اگر کہیں کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی اور کوئی ذمہ داری ہے تو کسی نہ کسی میں یہ جرات ہونی چاہیے کہ وہ اسے قبول اور میں اسے قبول کرتے ہوئے جماعت کے سینیئر وائس چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔‘‘
منگل کو پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماء اور ممتاز قانون دان اعتزاز احسن نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والی اپنی اہلیہ کی شکست پر کہا کہ وہ سینٹ کی نشست سے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں پنجاب کے گورنر مقرر کیے جانے والے مخدوم احمد محمود نے بھی یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئینی عہدیداروں کا چناؤ نئی حکومت کی صوابدید ہے۔
مخدوم احمد محمود گورنر مقرر ہونے سے قبل مسلم لیگ فنکشنل سے وابستہ تھے لیکن پھر انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ گورنر کے عہدے کے ساتھ ساتھ انھوں نے پارلیمانی سیاست سے بھی کنارہ کشی کا اعلان کیا۔
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صوبائی صدر مقرر ہونے والے منظور وٹو بھی جماعت کے اس عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ انھوں یہ عہدہ دیتے ہوئے یہ فریضہ سونپا گیا تھا کہ وہ روایتی طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں پیپلز پارٹی کو فعال اور مضبوط بنائیں گے۔
منگل کو مستعفی ہوتے ہوئے منظور وٹو کا کہنا تھا کہ صوبے میں ان کی جماعت کی ناکامی کے بعد ان کے پاس یہ عہدہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
مرکزی میں سابقہ حکومتی اتحاد اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں سابقہ حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرچکی ہے۔
مسلم لیگ ق کے رہنماؤں نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔