اسلام آباد —
پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے۔
اُنھوں نے ہفتہ کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ کچھ لوگ طالبان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
’’طالبان کے گروپ جو ملک میں شورش کرتے رہتے ہیں جو مختلف واقعات کرتے رہے ہیں وہ تقریباً 35 سے 40 گروپ ہیں ۔۔۔۔ جن میں سے بہت سے گروپ امن کی طرف آنے پر آمادہ ہیں۔‘‘
صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے ان گروپوں کو الگ کرنے میں مدد ملے گی جو بات چیت کے حق میں نہیں ہیں۔
’’حکومت کی کوشش ہے کہ جتنے گروپوں کو امن کے راستے پر آنے کے لیے آمادہ کر سکتی ہے تو اُن کو آمادہ کرے۔ جو جھگڑے اور فساد کا راستہ ہے اُس سے اُن کو ہٹائے۔ اگر ہم تمام گروپوں کو اس پر آمادہ نا بھی کر سکے، تو خدانخواستہ ہمیں اُن گروپوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا جو امن کے راستے پر آنے پر آمادہ نا ہوئے تو ایسے (گروپوں) کی تعداد محدود ہو جائے گی۔‘‘
صدر کا کہنا تھا کہ بدامنی کے باعث پاکستان کی اقتصادی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔
اُدھر ہفتہ کو پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف نے حکومت سے کہا کہ وہ مذاکرات کے عمل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔
طالبان سے مذاکرات کے لیے قائم سرکاری کمیٹی میں شامل رستم شاہ مہمند نے تحریک انصاف کی مرکزی کمیٹی کو شدت پسندی کے خاتمے کے لیے جاری مذاکراتی عمل سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔
جس کے بعد عمران خان کی جماعت نے ایک بیان میں کہا کہ مذاکرات کے باعث طالبان کی جانب سے دہشت گرد حملوں میں واضح کمی ہوئی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے عمل کے بارے میں یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت کی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان براہ راست مذاکرات میں پیش رفت جلد متوقع ہے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کا آئندہ دور بامعنی اور نتیجہ خیز ہو۔
تاہم وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بات چیت کے اس عمل میں تعطل کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ اُن کے بقول طالبان کے گروپوں کی آپس کی لڑائی اور بعض دیگر وجوہات مذاکرات کے عمل میں تاخیر کا سبب بنیں۔
سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات مارچ کے وسط میں ہوئی تھی۔ حکومت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے بعد دہشت گرد حملوں میں اگرچہ کمی آئی لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
رواں ہفتے ہی راولپنڈی میں ایک ریسٹورنٹ کے باہر اور بنوں میں پولیس کی گاڑی کے قریب بم دھماکوں میں اہلکاروں سمیت کم از کم 25 افراد زخمی ہوئے۔
اُنھوں نے ہفتہ کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ کچھ لوگ طالبان سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
’’طالبان کے گروپ جو ملک میں شورش کرتے رہتے ہیں جو مختلف واقعات کرتے رہے ہیں وہ تقریباً 35 سے 40 گروپ ہیں ۔۔۔۔ جن میں سے بہت سے گروپ امن کی طرف آنے پر آمادہ ہیں۔‘‘
صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے ان گروپوں کو الگ کرنے میں مدد ملے گی جو بات چیت کے حق میں نہیں ہیں۔
’’حکومت کی کوشش ہے کہ جتنے گروپوں کو امن کے راستے پر آنے کے لیے آمادہ کر سکتی ہے تو اُن کو آمادہ کرے۔ جو جھگڑے اور فساد کا راستہ ہے اُس سے اُن کو ہٹائے۔ اگر ہم تمام گروپوں کو اس پر آمادہ نا بھی کر سکے، تو خدانخواستہ ہمیں اُن گروپوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا جو امن کے راستے پر آنے پر آمادہ نا ہوئے تو ایسے (گروپوں) کی تعداد محدود ہو جائے گی۔‘‘
صدر کا کہنا تھا کہ بدامنی کے باعث پاکستان کی اقتصادی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔
اُدھر ہفتہ کو پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف نے حکومت سے کہا کہ وہ مذاکرات کے عمل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔
طالبان سے مذاکرات کے لیے قائم سرکاری کمیٹی میں شامل رستم شاہ مہمند نے تحریک انصاف کی مرکزی کمیٹی کو شدت پسندی کے خاتمے کے لیے جاری مذاکراتی عمل سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔
جس کے بعد عمران خان کی جماعت نے ایک بیان میں کہا کہ مذاکرات کے باعث طالبان کی جانب سے دہشت گرد حملوں میں واضح کمی ہوئی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے عمل کے بارے میں یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت کی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان براہ راست مذاکرات میں پیش رفت جلد متوقع ہے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کا آئندہ دور بامعنی اور نتیجہ خیز ہو۔
تاہم وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بات چیت کے اس عمل میں تعطل کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ اُن کے بقول طالبان کے گروپوں کی آپس کی لڑائی اور بعض دیگر وجوہات مذاکرات کے عمل میں تاخیر کا سبب بنیں۔
سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات مارچ کے وسط میں ہوئی تھی۔ حکومت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے بعد دہشت گرد حملوں میں اگرچہ کمی آئی لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
رواں ہفتے ہی راولپنڈی میں ایک ریسٹورنٹ کے باہر اور بنوں میں پولیس کی گاڑی کے قریب بم دھماکوں میں اہلکاروں سمیت کم از کم 25 افراد زخمی ہوئے۔