اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے از سر نو کوشش کی گئی ہے لیکن حکومت کا موقف واضح ہے کہ آئندہ کی ملاقات نتیجہ خیز ہونی چاہیئے۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں مذاکرات کے بارے میں پیش رفت متوقع ہے۔
’’حکومت کا موقف واضح ہے کہ آئندہ ملاقات نتیجہ خیز ہونی چاہیئے اور قوم کے سامنے یہ واضح ہو جانا چاہیئے کہ یہ مذاکرات کیوں ہو رہے ہیں اور کس ایجنڈے پر ہو رہے ہیں۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکہ کے نائب وزیر خارجہ ولیم برنز سے ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت حال پر تفصیلی بات چیت کی۔
لیکن اُنھوں نے واضح کیا کہ ولیم برنز کی طرف سے طالبان کے خلاف آپریشن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی اور اُنھوں نے اس حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کی۔
’’نا اُس طرف سے ہمیں کہا گیا کہ آپ فوجی آپریشن کریں یا نا کریں۔۔۔ جب دوسری طرف سے بات ہی نہیں ہوئی کسی قسم کی یقین دہانی کرانے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کا ایجنڈا صرف ایک ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق امن ہو۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ دوسری طرف سے یہ واضح موقف آنا چاہیئے کہ اُن کے کیا مطالبات ہیں اور یہ آئندہ میٹنگ میں طے ہو جانا چاہیئے۔‘‘
پاکستان کی موجودہ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد رواں سال کے اوائل میں طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا تاہم اب تک سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کے شوریٰ کے درمیان صرف ایک ہی براہ راست ملاقات ہو سکی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں دس روز کی توسیع کر دی گئی لیکن پھر طالبان کی شوریٰ نے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
اگرچہ طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں کمی آئی لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پر نہیں رکا اور قبائلی علاقوں کے علاوہ شہروں میں بھی بم دھماکے ہو چکے ہیں۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں مذاکرات کے بارے میں پیش رفت متوقع ہے۔
’’حکومت کا موقف واضح ہے کہ آئندہ ملاقات نتیجہ خیز ہونی چاہیئے اور قوم کے سامنے یہ واضح ہو جانا چاہیئے کہ یہ مذاکرات کیوں ہو رہے ہیں اور کس ایجنڈے پر ہو رہے ہیں۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکہ کے نائب وزیر خارجہ ولیم برنز سے ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت حال پر تفصیلی بات چیت کی۔
لیکن اُنھوں نے واضح کیا کہ ولیم برنز کی طرف سے طالبان کے خلاف آپریشن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی اور اُنھوں نے اس حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کی۔
’’نا اُس طرف سے ہمیں کہا گیا کہ آپ فوجی آپریشن کریں یا نا کریں۔۔۔ جب دوسری طرف سے بات ہی نہیں ہوئی کسی قسم کی یقین دہانی کرانے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کا ایجنڈا صرف ایک ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق امن ہو۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ دوسری طرف سے یہ واضح موقف آنا چاہیئے کہ اُن کے کیا مطالبات ہیں اور یہ آئندہ میٹنگ میں طے ہو جانا چاہیئے۔‘‘
پاکستان کی موجودہ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد رواں سال کے اوائل میں طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا تاہم اب تک سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کے شوریٰ کے درمیان صرف ایک ہی براہ راست ملاقات ہو سکی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں دس روز کی توسیع کر دی گئی لیکن پھر طالبان کی شوریٰ نے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
اگرچہ طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں کمی آئی لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پر نہیں رکا اور قبائلی علاقوں کے علاوہ شہروں میں بھی بم دھماکے ہو چکے ہیں۔