پاکستان اور افغانستان کی سیاسی قیادت کے مابین ملاقات پیرس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے موقع پر متوقع ہے جسے دونوں ملکوں اور خطے کو درپیش سلامتی کے خطرات کے تناظر میں نیک شگون قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ وزیراعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے مابین پیرس میں ملاقات ہونے کی توقع ہے لیکن انھوں نے اس بارے میں مزید تفصیل فراہم کرنے سے گریز کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بابت فی الوقت مزید کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔
دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات میں حالیہ مہینوں میں اس وقت تناؤ پیدا ہونا شروع ہوا جب کابل نے یہ کہہ کر اسلام آباد کی طرف انگشت نمائی کی کہ پاکستانی سرزمین مبینہ طور پر افغانستان مں دہشت گردی کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اپنا بھرپور تعاون جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دوران ان کی صدر براک اوباما سے ہونے والی ملاقات میں بھی اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں مصالحتی عمل کی بحالی کے لیے کوششیں کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس ہفتے پاکستان کے پختون قوم پرست رہنماؤں پر مشتمل ایک وفد نے کابل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور شائع شدہ اطلاعات کے مطابق انھوں نے افغان رہنما کو پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تاکہ تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے۔
افغان امور کے ماہر اور سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں رہنماؤں کی متوقع ملاقات سے تعلقات میں تناؤ کسی حد تک کم ہو گا اور امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ افغانستان پاکستان سے تعلقات کو بہتر کرے۔
"اس کے لیے تیاری تو ہو رہی تھی، میرے خیال میں جو تعلقات بگڑ گئے تھے اس میں بہتری پیدا ہو گی اور اگر یہ ہوا تو پھر ممکن ہے پاکستان پھر سے طالبان کو منائے کہ وہ افغان حکومت سے بات چیت کریں۔"
پاکستان نے رواں سال جولائی میں افغان طالبان اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی لیکن بعد ازاں بوجوہ اس کا دوسرا دور وقوع پذیر نہ ہو سکا اور افغانستان میں تشدد پر مبنی طالبان کی کارروائیوں میں تیزی کے بعد بات چیت کی بحالی بھی خطرے میں پڑ گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ طالبان کے آپسی اختلافات بھی خاصے گہرے ہو چکے ہیں اور رواں ماہ ہی ایک اہم کمانڈر ملا محمد رسول نے اپنا ایک علیحدہ گروپ بنانے کا اعلان کیا۔
رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ بات چیت شروع کرنے کی کوششیں ضرور ہو رہی ہیں جو کہ خوش آئند ہیں لیکن اس میں کس حد تک کامیابی ہوگی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
"افغان طالبان کا ایک بڑا دھڑا ہے ملا منصور کا کیا وہ بات چیت کے لیے تیار ہوگا، پہلے تو اس نے بات چیت کی تھی اور پھر جو دھڑا ان سے علیحدہ ہو گیا ہے ملا رسول کا اس کا کیا فیصلہ ہو گا۔ بات چیت شروع کرنا بڑا مشکل ہوگا اور اس کو کامیاب کروانا اس سے بھی مشکل ہوگا لیکن یہ کوشش تو ہو رہی ہے کہ بات چیت پھر سے شروع کی جائے۔"
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس روانہ ہو چکے ہیں اور توقع ہے کہ وہاں دیگر عالمی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی وہ دیگر امور کے علاوہ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے اپنے ملک کے نقطہ نظر سے انھیں آگاہ کریں گے۔