پاکستان کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے ایک بار پھر زور دے کر اپنے ملک کے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان میں امن پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے بہت اہم ہے۔
یہ بات انھوں نے پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کی قائم مقام نمائندہ خصوصی لورل ملر سے گفتگو میں کہی جنہوں نے بدھ کو اسلام آباد میں طارق فاطمی سے ملاقات کی۔
امریکی عہدیدار کے اس دورے کا مقصد بظاہر افغانستان میں قیام امن کے عمل کی بحالی کے لیے کوششوں کو تقویت دینا ہے۔
معاون خصوصی نے اس موقع پر نمائندہ خصوصی کو افغانوں کی زیر قیادت اور شمولیت پر مبنی امن عمل میں پاکستان کی کوششوں اور حمایت سے آگاہ کیا۔
لورل ملر نے افغانستان میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا۔
پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اپنا تعاون اور حمایت جاری رکھے گا کیونکہ افغانستان میں امن خود پاکستان کے امن و سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔
پاکستان نے رواں سال جولائی کے اوائل میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی بھی کی تھی جسے جنگ سے تباہ حال ملک میں امن کی کوششوں کے لیے ایک اچھی پیش رفت قرار دیا گیا۔
لیکن پھر طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آنے اور طالبان کے آپسی اختلافات جولائی کے اواخر میں طے شدہ ملاقات کے دوسرے دور کی معطلی کا باعث بنے جن کا مستقبل بعد ازاں افغانستان میں طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے مسدود ہو کر رہ گیا۔
پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی طرف سے رواں ماہ ہی یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ گو کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے مصالحت کا عمل ہی بہترین راستہ ہے لیکن ان کے بقول فریقین (افغان حکومت اور طالبان) کے درمیان بات چیت کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔
دفاعی امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے موجودہ حالات اور پاکستان سے وابستہ توقعات کے تناظر میں امریکہ کا کردار اور بھی اہم ہو گیا ہے اورقائم مقام نمائندہ خصوصی کی پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتیں اس وقت اہمیت کی حامل ہیں۔
"امریکہ جو کردار ادا کرے گا اس سے پاکستان اور افغانستان کے تعاون میں خاصا فرق پڑ سکتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک لحاظ سے سرد مہری سی آگئی ہے اور جس طرح کا اعتماد ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کیا جائے تاکہ کسی طریقے سے سیاسی سطح پر معاملات حل ہوتے ہیں تو پھر اس کے مثبت اثرات پاکستان پر بھی ہوں گے اور پاکستان یہی توقع کر رہا ہے۔"
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے بدھ کی شام جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ صدر براک اوباما کے معاون خصوصی اور جنوبی ایشیا کے امور کے سینیئر ڈائریکٹر پیٹر لیوائے اور پاکستان، افغانستان کے لیے قائم مقام نمائندہ خصوصی لورل ملر نے دو روزہ دورے کے دوران پاکستانی عہدیداروں سے بامعنی ملاقاتیں کیں۔
بیان کے مطابق امریکی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ امریکہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو بہت سراہتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ مفادات بشمول جمہوریت کا فروغ، امن و سلامتی اور اقتصادی ترقی پر مشتمل طویل المدت شراکت داری ہے۔