افغانستان میں امریکی قید خانے سے رہائی پانے والے چھ پاکستانی اب پشاور میں سرکاری تحویل میں ہیں اور ان کے اہل خانہ نے حکومت سے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو جیل میں رکھنے کی وجوہات بتائی جائیں۔
ان چھ افراد کو امریکی حکام نے طالبان سے روابط کے شبے میں افغانستان سے گرفتار کیا تھا اور الزامات ثابت نہ ہونے پر انھیں 16 نومبر کو رہا کر کے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
وطن واپس پہنچنے کے بعد سے یہ افراد پشاور کی جیل میں قید ہیں جہاں پیر کو پہلی مرتبہ ان کے اہل خانہ نے ان سے ملاقات کی۔
بگرام سے رہائی پانے والے چھ افراد کے اہل خانہ کے ہمراہ ان کے وکلا بھی پشاور میں موجود تھے۔
وکلاء میں شامل سارہ بلال نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے یہ افراد 16 نومبر سے پشاور جیل میں بند ہیں اور سرکاری طور پر ان کی حراست کی وجوہات کےبارے میں نہیں بتایا گیا ہے۔
’’جو وارنٹ پر ہم نے دیکھا اس کے مطابق ان لوگوں کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے سیکشن 40 کے تحت رکھا گیا ہے۔۔۔اب ان کی پولیٹیکل ایجنٹ کے سامنے چھ دسمبر کو پیشی ہے جب کہ لاہور ہائی کورٹ میں ہم نے جو درخواست دائر کر رکھی ہے اس کی سماعت پانچ دسمبر کو ہو رہی ہے۔‘‘
سارہ بلال نے بتایا کہ یہ افراد 2005ء سے افغانستان میں بگرام میں امریکی حکام کی حراست میں تھے اور ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں ہیں۔
ان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ان کے بارے میں استفار پر اہل خانہ کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ پشاور جیل میں ہیں۔
افغانستان میں قائم بگرام جیل انتہائی سخت حفاظتی حصار والا قید خانہ ہے جسے کیوبا میں خلیج گوانتانامو کے امریکی قید خانے کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔
ان قید خانوں میں زیرحراست ملزمان پر کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاتا بلکہ امریکی فوجی حکام کے خصوصی بورڈز ان پر الزامات کا جائزہ لیتے ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ بگرام میں درجنوں پاکستانی افراد قید ہیں، لیکن سرکاری طور پر اس جیل میں بند پاکستانیوں کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
اس معاملے پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل یا وضاحت تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔
ان چھ افراد کو امریکی حکام نے طالبان سے روابط کے شبے میں افغانستان سے گرفتار کیا تھا اور الزامات ثابت نہ ہونے پر انھیں 16 نومبر کو رہا کر کے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
وطن واپس پہنچنے کے بعد سے یہ افراد پشاور کی جیل میں قید ہیں جہاں پیر کو پہلی مرتبہ ان کے اہل خانہ نے ان سے ملاقات کی۔
بگرام سے رہائی پانے والے چھ افراد کے اہل خانہ کے ہمراہ ان کے وکلا بھی پشاور میں موجود تھے۔
وکلاء میں شامل سارہ بلال نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے یہ افراد 16 نومبر سے پشاور جیل میں بند ہیں اور سرکاری طور پر ان کی حراست کی وجوہات کےبارے میں نہیں بتایا گیا ہے۔
’’جو وارنٹ پر ہم نے دیکھا اس کے مطابق ان لوگوں کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے سیکشن 40 کے تحت رکھا گیا ہے۔۔۔اب ان کی پولیٹیکل ایجنٹ کے سامنے چھ دسمبر کو پیشی ہے جب کہ لاہور ہائی کورٹ میں ہم نے جو درخواست دائر کر رکھی ہے اس کی سماعت پانچ دسمبر کو ہو رہی ہے۔‘‘
سارہ بلال نے بتایا کہ یہ افراد 2005ء سے افغانستان میں بگرام میں امریکی حکام کی حراست میں تھے اور ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں ہیں۔
ان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ان کے بارے میں استفار پر اہل خانہ کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ پشاور جیل میں ہیں۔
افغانستان میں قائم بگرام جیل انتہائی سخت حفاظتی حصار والا قید خانہ ہے جسے کیوبا میں خلیج گوانتانامو کے امریکی قید خانے کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔
ان قید خانوں میں زیرحراست ملزمان پر کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاتا بلکہ امریکی فوجی حکام کے خصوصی بورڈز ان پر الزامات کا جائزہ لیتے ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ بگرام میں درجنوں پاکستانی افراد قید ہیں، لیکن سرکاری طور پر اس جیل میں بند پاکستانیوں کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
اس معاملے پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل یا وضاحت تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔