پاکستان میں آم کے کاشت کاروں کا کہنا ہےکہ گرمی کی شدت اور پانی کی قلت کے باعث ملک کے بعض حصوں میں آم کی پیداوار 40 فی صد تک کم ہوگئی ہے۔
موسمِ گرما شروع ہوتے ہی پاکستان میں سوغات شمار ہونے والے پھل آم کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ گرمی اور نمی بڑھنے کے ساتھ ساتھ آم کی درجنوں اقسام بھی تیار ہوجاتی ہیں۔
لیکن رواں برس معمول کے خلاف مارچ ہی میں گرمی کی شدت بڑھنا شروع ہوگئی تھی۔ اس کے بعد آنے والی گرمی کی شدید لہروں سے آم کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔
آم کی کاشت کا زیادہ تر انحصار دریاؤں اور نہروں سے منسلک آب پاشی کے نظام پر ہے۔ رواں برس ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاؤں اور نہروں میں پانی کی کمی سے بھی آم کی فصل کو دھچکا لگا ۔
آم کے کاشت کار اور باغ کے مالک فضلِ الہی کا کہنا ہے کہ ہر سال ان کے باغ میں درختوں سے اترنے والے آم 24 ٹرکوں پر لادے جاتے تھے جب کہ اس بار یہ تعداد نصف ہوگئی ہے۔
اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فضلِ الہی کا کہنا تھا: "ہم برباد ہوگئےہیں"۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان آم کی برآمدات کرنے والے سرِ فہرست ممالک میں شامل ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں اس کی سالانہ پیداوار 20 لاکھ ٹن تک ہوتی ہے۔
سندھ کے محکمۂ آبپاشی کے ایک اعلیٰ عہدے دار گہرام بلوچ کا کہنا ہے کہ مجموعی پیداوار کا اندازہ ابھی لگایا جائے گا البتہ اکثر علاقوں میں آم کی پیداوار میں 20 سے 40 فی صد تک کمی آئی ہے۔
پاکستان میں آموں کا شہر کہلانے والے سندھ کے شہر میر پور خاص میں کئی باغات کے مالک عمر بھگیو کا کہنا ہے کہ انہیں اس برس معمول کے مقابلے میں آدھا پانی ملا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ رواں برس آم کے کاشت کاروں کو دو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار وقت سے پہلے گرمی بڑھ گئی اور دوسرا پانی کی قلت ہوگئی۔
ماحولیاتی تغیرات کا چیلنج
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جو تباہ حال انفرااسٹرکچر اور بد انتظامی کے باعث آبی وسائل پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
ماحولیات پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’جرمن واچ‘ کے مرتب کردہ ’گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس‘ میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید موسم کے خطرات کا سامنا کرنے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سیلاب، خشک سالی اور طوفانوں کے باعث پاکستان میں ہزاروں افراد کی جانیں جاچکی ہیں جب کہ ہزاروں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ اس تباہی سے روزگار اور انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
پانی کی کھپت میں اضافہ
فوڈ سیکیورٹی کے ماہر اور پالیسی تھنک ٹینک ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ (ایس پی ڈی آئی) کے سربراہ عابد سلہری کا کہنا ہے کہ وقت سے پہلے درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے فصلوں کے لیے پانی کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔
آم کی کاشت کے علاقوں میں عام طور پر مئی کے آغاز میں درجہ حرارت میں اضافہ متوقع ہوتا ہے جو پھل پکانے میں مدد گار ہوتا ہے کیوں کہ جون جولائی تک آم درختوں سے اتار لیے جاتے ہیں۔
لیکن مارچ ہی میں گرمی کی شدت بڑھنے سے آم کے پھول بری طرح متاثر ہوئے جو کہ آم کے پیداواری عمل کا ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے۔
کاشتکار فضل الہی کا کہنا ہے کہ ہمارے آم کے ایک دانے کا وزن 750 گرام تک ہوتا ہے لیکن اس بار ہمیں پھل وقت سے پہلے توڑنا پڑا جس کی وجہ سے اس کا وزن اور حجم بہت کم رہ گیا۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔)