پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ سے چار سال قبل اغوا ہونے والے پروفیسر اجمل خان بازیابی کے بعد جمعہ کو علی الصبح اپنے گھر پہنچ گئے۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر اجمل خان کو پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان کے شوال نامی علاقے سے بازیاب کیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور پہنچایا گیا۔
وائس چانسلر کو سات ستمبر 2010ء میں اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنے گھر سے یونیورسٹی جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ اغوا کیے گئے ڈرائیور کو دو سال قبل بازیاب کروا لیا گیا تھا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پروفیسر اجمل کے اغوا کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان کے بدلے لاکھوں روپے تاوان اور اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے بتایا کہ انھیں اغوا کار پہلے خیبر ایجنسی اور پھر وزیرستان لے گئے جہاں انھیں شروع میں بہت دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات اور اغوا کاروں کا رویہ ان کے ساتھ مناسب ہوتا چلا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ وقت گزاری کے لیے وہاں دو بچوں کو پڑھایا کرتے تھے اور پھر یہ تعداد 32 تک پہنچ گئی۔ ان کے بقول وہ اس دوران ڈیوہ اور مشال ریڈیو کی نشریات سنا کرتے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں پھر میران شاہ لایا گیا جہاں سے ہفتے میں ایک بار ان کی اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کروائی جاتی تھی۔
پاکستانی فوج جون سے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہی ہے اور اس دوران 600 سے زائد شدت پسندوں کو مارا جا چکا ہے۔
رواں سال کے اوائل میں طالبان سے حکومت کے مذاکرات میں بھی پروفیسر اجمل کی رہائی کا معاملہ زیر بحث رہ چکا ہے لیکن نہ تو مذاکرات کامیاب ہو سکے اور نہ ہی ماہر تعلیم کی رہائی ممکن ہو سکی تھی۔
طالبان نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹوں کو بھی اغوا کیا تھا جنہیں تاحال بازیاب نہیں کروایا جا سکا۔
پروفیسر اجمل کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ اغوا کاروں کی تحویل میں کوئی اور مغوی نہیں تھا لیکن ان کے بقول انھوں نے ایسا سنا تھا کہ وہ القاعدہ کے پاس ہیں۔
انھوں نے چند روز آرام کرنے کے بعد دوبارہ اپنا کام شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
چار سالوں کے دوران طالبان کی طرف سے پروفیسر اجمل کی وڈیو بھی جاری کی جاتی رہیں جن میں وہ اپنی ناسازی طبع کا ذکر کرتے نظر آتے تھے۔