میانمار کی حکمران جماعت کی سربراہ اور ملک کی وزیرِ خارجہ آنگ سان سوچی نےکہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی پر عالمی برادری کی برہمی کی اصل وجہ "غلط معلومات کا وہ پہاڑ" ہے جس کے باعث حقیقت چھپ گئی ہے۔
میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف گزشتہ ماہ سے جاری تشدد کی نئی لہر کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ آنگ سان سوچی نے اس مسئلے پر اپنی زبان کھولی ہے۔
میانمار میں جمہوریت کی بحالی کی طویل جدوجہد پر امن کا نوبیل انعام پانے والی آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی حالیہ بدسلوکی پر مکمل چپ سادھ رکھی تھی جس پر انہیں دنیا بھر میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔
بدھ کو سوچی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں نوبیل انعام یافتہ رہنما نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے عالمی برداری میں پیدا ہونے والی ہمدردی کا سبب دراصل "غلط معلومات کا وہ پہاڑ ہے جس کے باعث میانمار کی مختلف کمیونیٹیز میں مسائل بڑھ رہے ہیں اور دہشت گردوں کے مفادات کو فروغ مل رہا ہے۔"
سوچی کے دفتر نے یہ بیان ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ ان کی ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد جاری کیا ہے۔
ترکی میانمار کی فوج اور بودھ نسل پرستوں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی مذمت میں پیش پیش ہے اور اور ترک حکومت نے اسے مسلمانوں کی "نسل کشی" قرار دیا ہے۔
بیان میں آنگ سان سوچی نے اپنی حکومت کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت ریاست راکھین میں تمام لوگوں کا "تحفظ" کر رہی ہے۔
میانمار میں آباد 10 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو اقوامِ متحدہ نے دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دے رکھا ہے جنہیں میانمار اپنا شہری تسلیم نہیں کرتا۔
روہنگیا مسلمان گزشتہ کئی برس سے بودھ نسل پرستوں اور میانمار کی فوج کے ہاتھوں مظالم اور تشدد کا سامنا کرتے آرہے ہیں۔
تشدد کی حالیہ لہر کا آغاز 'اراکان روہنگیا سالویشن آرمی' نامی روہنگیا مسلمانوں کی مسلح تنظیم کی جانب سے 25 اگست کو میانمار کی سرحدی پولیس کی چوکیوں پر چھاپہ مار کارروائیوں کے بعد ہوا تھا۔
حملے کے بعد میانمار کی فوج اور بودھ انتہا پسندوں نے راکھین میں آباد روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں جلادیے ہیں جب کہ تشدد میں اب تک لگ بھگ 400 افراد مارے جاچکے ہیں۔
تشدد سے بچنے کے لیے گزشتہ 10 روز کے دوران سوا لاکھ روہنگیا مسلمان سرحد عبور کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔
پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کے مطابق بودھ نسل پرست اور میانمار کی فوج مسلمانوں کے دیہات نذرِ آتش کرنے کے علاوہ خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنارہی ہے جب کہ نہتے لوگوں کا قتلِ عام کیا جارہا ہے۔
آنگ سان سوچی کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے میانمار جانے کے خواہش مند اقوامِ متحدہ کے ایک وفد کے ارکان کو ویزے دینے سے انکار کردیا ہے۔