پاکستان میں اتوار کو سیاسی منظر نامے میں خوب ہلچل دیکھی جا رہی ہے جس میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جہاں نوآموز سیاسی جماعت "پاک سرزمین پارٹی" اپنا پہلا باقاعدہ سیاسی پنڈال سجا رہی ہے تو وہیں شہر کی بااثر سیاسی جماعت تصور کی جانے والی متحدہ قومی موومنٹ اپنے کارکنوں کی گمشدگیوں کے خلاف دھرنا دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے۔
ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں جماعت اسلامی نے پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور اتوار کو اس کے رہنما اور کارکنان پنجاب اسمبلی کے باہر جمع ہوئے۔
شہر اقتدار اسلام آباد میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بیسویں یوم تاسیس کے موقع پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا ہے جس میں شرکت کے لیے ملک کے دیگر شہروں سے اس کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد یہاں پہنچی ہے۔
رواں ماہ پاناما پیپرز میں عالمی سطح پر جن شخصیات کے غیر ملکی اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کی تفصیلات افشا کی گئی تھیں ان میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا اپنا نام تو شامل نہیں لیکن اس میں ان کے بچوں کے نام سامنے آنے کے بعد حزب مخالف نے حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
عمران خان نے اس معاملے پر ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس منصب پر فائز رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔
غیر معمولی طور پر ایک ہی مہینے میں دو بار قوم سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف خود پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کے لیے وہ پرعزم ہیں اور انھوں نے حزب مخالف کے مطالبے کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لیے خط لکھ دیا ہے۔
حکومت کی طرف سے کمیشن کے مجوزہ ضابطہ کار میں یہ کہا گیا کہ کمیشن پاناما سمیت دنیا بھر میں کہیں پر بھی پاکستانی شخصیات کی آف شور کمپنیوں کے تحقیقات کے ساتھ ساتھ، غیر قانونی طور پر رقم کی بیرون ملک منتقلی سمیت قرضے معاف کروانے والوں کی بھی چھان بین کرے۔
حزب مخالف نے مجوزہ ضابطہ کار کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں حکومت نے اس سے مشاورت نہیں کی۔
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اتوار کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پوری اپوزیشن نے اس مجوزہ ضابطہ کار کو مسترد کیا ہے اور ان کے بقول جلد ہی وہ اس بارے میں حزب مخالف سے مشورے کے لیے ملاقاتیں کریں گے۔
"ان ٹی او آرز کے تحت کام کرنا ہے تو یہ حجت تمام کے مترادف ہوگا، یہ صرف اشک شوئی ہوگی۔"
حکومتی عہدیدار حزب مخالف کے استرداد کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا گیا ہے اور اگر اب بھی حزب مخالف مطمئن نہیں تو ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔
وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل کریں گے اور اس میں انھیں قصور وار ٹھہرایا گیا تو وہ اپنے منصب سے علیحدہ ہو جائیں گے۔