پاکستان نے امریکی کانگریس سے منظور ہونے والے اس قانون پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ جس کے تحت امریکہ میں 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے متاثرین غیر ملکی افراد، اداروں اور حکومتوں کے خلاف مقدمات دائر کر سکیں گے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے گزشتہ جمعہ کو اس مسودہ قانون کی منظوری دی تھی جب کہ سینیٹ نے دہشت گردوں کے حامیوں کے خلاف انصاف کی اس شق کو مئی میں منظور کیا تھا۔
اوباما انتظامیہ اس مجوزہ قانون کو ویٹو کرنے کا انتباہ کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ اس سے خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی سعودی عرب کے تعلقات میں دراڑ پڑ سکتی ہے جب کہ بیرون ملک امریکی شہریوں کو قانونی خدشات لاحق ہونے کے علاوہ امریکہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ کھل سکتا ہے۔
نائین الیون حملوں کے لیے مسافر طیاروں کو اغوا کرنے والے 19 افراد میں سے 15 سعودی شہری تھے لیکن سعودی عرب کی حکومت ان حملوں میں کسی بھی طرح کے کردار یا اس میں ملوث تنظیموں سے رابطے کو مسترد کر چکی ہے۔
بدھ کو پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس قانون سے عالمی صورتحال مزید پیچیدہ ہوگی۔ مزید برآں نسل پرستی اور تناؤ کی بجائے امن اور تعاون کو فروغ دینے کے اقدام کیے جانے چاہیئں۔
پاکستان کی طرف سے سامنے آنے والے اس بیان سے دو روز قبل ہی خلیج تعاون کونسل نے اس قانون پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ممالک کے مابین تعلقات کے بنیاد اور اصولوں کے منافی قرار دیا تھا۔
پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر یہ قانون نافذ ہو جاتا ہے تو بیرونی ممالک کو عدالتوں میں لے جانے کا ایک دروازہ کھل جائے گا جو کہ خاص طور پر کمزور ریاستوں کے لیے کسی بھی طور اچھا نہیں ہوگا۔
"ایک دروازہ کھل جائے گا کسی بھی بیرونی حکومت کو عدالتوں میں لے جانے کا، امریکہ عدالتوں میں فیصلہ جو بھی ہو لیکن فیصلے کے عمل تک پہنچنے کے لیے جو سرمایہ درکار ہوتا ہے وہ عام آدمی یا کمزور ریاست کے بس کی بات نہیں ہوتی۔۔امریکہ میں جو مقدمات کی تاریخ ہے اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے کافی ملکوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں اور اسلام سے متعلق مغرب اور امریکہ میں پائی جانے والی خوف کی عمومی فضا کے پیش نظر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس خوف کو ختم کر کے ہی مغرب اور مسلمان معاشروں کو قریب لانے میں مدد مل سکتی ہے۔