پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات اور توانائی کا بحران جہاں کئی چھوٹی بڑی صنعتوں کی بندش اور روزگار کے وسائل میں کمی کا باعث بنا وہیں حالیہ برسوں میں ضروری اشیاء بالخصوص اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں بتدریج اضافے سے بھی عوام پریشان ہیں ۔ اس صورت حال میں رمضان کی آمد سے قبل لوگوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافے نے اُن کی مشکلات کو اوربڑھا دیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کی ایک مارکیٹ میں خریداری کے لیے آنے والے ریشم خان ٹیکسی ڈرائیور ہیں اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مہنگائی میں اضافے کے بارے میں کہا ” ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ ابھی رمضان میں چند دن باقی ہیں اور مزید مہنگائی کا امکان بھی ہے ۔ اگر اشیاء سستی نہیں ہوتی ہیں تو اُن کی قیمتوں کو برقرار تو رکھنا چاہیئے۔“
پھل فروش محمد جمال کا کہنا ہے کہ دکانداروں کی بجائے منڈیوں میں قیمتوں کے تعین کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اُنھوں نے بتایا کہ رمضان کے آغاز سے قبل ضروری اشیاء کی قیمتوں میں 20 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے ۔ ”رمضان کے مہینے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اچھا کھائے اور اس لیے جن لوگ نے مال ذخیرہ کیا ہوتا ہے وہ اچھی قیمت پر فروخت کرنے کے لیے اس مقد س اسلامی مہینے کا انتظار کرتے ہیں۔“
تاہم وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ذخیزہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے باعث عوام کو جن مشکلا ت کا سامنا کرناپڑتا ہے اس کے تدارک کے لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تما م صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ رمضان میں سستی اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے میں اپنا فعال کردار ادا کریں۔ ”وفاقی حکومت نے رمضان پیکج کے تحت یوٹیلٹی اسٹوز کے ذریعے ضروری اشیاء کی سستے داموں فراہمی کے لیے دو ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔“
صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم دی نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے اشیاء خوردنی پر دو ارب روپے کے رعایتی پیکج کے تحت حکومت کے زیرانتظام چلنے والے یوٹیلٹی اسٹور پرکھانے پینے کی اشیاء سستے داموں فروخت کی جائیں گی لیکن ندیم اقبال کا کہنا ہے کہ اس کا فائد ہ غریب آدمی کی بجائے متوسط اور امیر افراد کو ہوگا جو ان اسٹورز سے خریداری کرتے ہیں۔
غیر جانبدار مبصرین اور غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ رمضان میں اشیاء خودرنی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ضلعی سطحی پر قیمتوں کے کنٹرول کے منظم نظام کا ناہونا ہے ۔ غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے ایک اعلیٰ عہدیدار ناصر عزیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ”لوکل سطح پر مارکیٹ کمیٹیوں کا وجود کہیں نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے قیمتوں پر چیک کا نظام موجود نہیں ۔“
دریں اثناء حکومت پاکستان نے گوشت اور زندہ جانوروں کی برآمد پر تین ماہ کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔ وزارت تجارت کے بیان میں کہا گیا ہے وفاقی وزیر امین فہیم نے گذشتہ دو سالوں کے دوران اندرون ملک گوشت کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور ماہ رمضان میں اس کی ملک میں ضرورت کے تناظر میں اس پابندی کا اعلان کیا۔
سرکاری بیان میں کہا گیا کہ گوشت کی قیمتوں میں اضافے کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں جن میں جولائی 2010ء کے سیلاب میں 15لاکھ جانوروں کی ہلاکت اور مختلف پڑوسی ممالک کو جانوروں کی ا سمگلنگ بھی شامل ہے ۔ وزارت تجارت کے مطابق اس پابندی سے ملک میں گوشت کی طلب اور رسد کے درمیان فرق کو کم کرنے کے علاوہ جانوروں کی قیمتوں میں کمی بھی ہوسکے گی ۔
بیان کے مطابق حکومت نے ملک میں مویشیوں کی افزائش کے کئی منصوبے بھی شروع کیے ہیں کیوں کہ حکومت گوشت کی برآمد کی بجائے اس کی بنی ہوئی اشیاء کو بیرون ملک بھیجنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ بیان میں کہا کہ حکومت نے ہلال خوراک کی تصدیق کا ایک نظام بھی وضع کیا گیا ہے جس سے ساٹھ کروڑ ڈالر ز زر مبادلہ کا حصول ممکن ہوگا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2010ء سے مارچ 2011ء تک 95 ہزار جانور برآمد کیے گئے۔