پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ملکوں میں مہنگائی بالخصوص خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں روز کا معمول بن چکی ہیں ۔کھانے پینے کی چیزوں میں اضافے کا رجحان گذشتہ چند برسوں سے جاری ہے اور مختلف علاقوں اور ممالک میں اس رجحان کی وجوہات مختلف ہیں ، لیکن ماہرین کا کہناہے کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے زیادہ تر بنیادی عوامل ایک جیسے ہیں۔
اقوام ِ متحدہ کی جانب سے خوراک کی قیمتوں کے اتار چڑھائو کی فہرست میں اضافے کا سلسلہ گذشتہ جولائی سے شروع ہو کر اس سال جنوری میں ریکارڈ سطح پر آکر ختم ہوا ، لیکن اس کے بعد سے اب تک قیمتوں میں کمی نہیں دیکھی جا سکی۔ اقوام ِ متحدہ کی اس فہرست میں آخری مرتبہ ریکارڈ اضافہ تین سال قبل 2008ء میں نوٹ کیا گیا تھا۔
انٹرنیشنل فوڈ ریسرچ پالیسی کے سربراہ شین جین فین کا کہناہے کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ خوراک کی فصلوں سے ایندھن کا حصول ہے۔ امریکہ میں گذشتہ کچھ برسوں میں مکئی جبکہ برازیل میں گنے کی فصل سے ایتھنول بنانے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔جبکہ یورپ میں کنولا کی فصل سے بائیو ڈیزل بنایا جا رہا ہے۔ ایتھنول اور بائیوڈیزل خام تیل کے متبادل کے طور پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
امریکی ریاست آئیوا کی اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایک ماہر معاشیات ڈیرموٹ ہیز کہتے ہیں کہ فی زمانہ خوراک اور توانائی کی قیمتیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
خام تیل کی قیمت میں اضافے سے فصلوں کوکھیتوں سے اٹھا کر دوسری جگہ تک لے جانا مزید مہنگا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ٹرک اور ٹریکٹرز وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ شین جن فین کا کہنا ہے کہ خوشحال ممالک میں خوراک کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ چین، بھارت اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں، لوگوں کا طرز ِ زندگی بہتر ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی خوراک میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اب انہیں پہلے سے زیادہ اور بہتر خوراک درکار ہے۔
فین کے مطابق دنیا میں اناج کی ضروریات بڑھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ممالک جہاں اناج بڑی مقدار میں اگایا جاتا ہے ،دنیا کی اناج کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید اناج کاشت کریں۔ مگر ڈیر موٹ ہیز کہتے ہیں کہ گذشتہ سال موسمی تغیر کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔
گذشتہ سال کم بارشوں کی وجہ سے روس اور یوکرین میں گندم کی فصلوں کو بہت نقصان پہنچا ۔ جس کے باعث گذشتہ سال جولائی میں عالمی سطح پر گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا۔
گو کہ اس سال مشرقی یورپ میں موسمی حالات درست دکھائی دیتے ہیں لیکن ہیز کا کہنا ہے کہ ا س سال وسط مغربی امریکہ میں بارشیں توقعات سے کم ہوئی ہیں۔ انہیں امریکہ میں سویابین اور مکئی کی فصلوں کے بارے میں خدشات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگلے سال بھی ہمیں شاید اسی صورتحال کا سامنا ہو جس کا سامنا گذشتہ سال تھا ۔ یوں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان اگلے سال بھی جاری رہ سکتا ہے۔
ہیز کا کہنا ہے کہ اگلے سال خوراک کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کی خبر کسانوں کے لیے خوش کن ہے۔ زیادہ قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں کسان زیادہ فصلیں کاشت کرنے پر توجہ دیں گے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ کسان دنیا میں اناج کی طلب کے مطابق فصلیں کاشت کر سکیں گے۔ جبکہ ماہرین کے نزدیک دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ کیا موسمی تغیر کے باعث کسانوں کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو سکے گا؟