اسلام آباد میں قائم بہبودسے متعلق صارفین کے ایک غیر سرکاری ادارے’ نیٹ ورک‘ کےسربراہ، ندیم اقبال کا کہنا ہے کہ رمضان کے موقعے پر سبسڈی دینا کوئی دیرپا حل نہیں ہے اور ہر حکومت سیاسی فائدے کے لیے ایسا کرتی رہی ہے۔
ندیم اقبال کا کہنا تھا کہ سبسڈی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے دی جاتی ہے، جس کا آخرِ کار شمار خسارے کےزمرے میں ہوگا۔ نتیجے میں، حکومت کو خرچ اور آمدن میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینا پڑے گا، جِس عمل سے کساد بازاری میں اضافہ ہوگا، اور دو ماہ کے اندر اندر پھر قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
اُنھوں نے یہ بات جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے ’رمضان اور اشیائے خوردنی‘ کے موضوع پر گفتگو میں کہی۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ضروری نہیں ہے کہ اِن مراعات کا فائدہ صرف غریب لوگوں کو پہنچے۔
صارفین کے نمائندے کے الفاظ میں ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ یوٹلٹی اسٹورزکا فائدہ کس کو ہوتا ہے: غریب ، متوسط یا اونچی سطح کے طبقے کو؟
اِس ضمن میں، اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایک یوٹلٹی اسٹور اسلام آباد کےF8اور کراچی کمپنی کے علاقوں میں قائم ہے، جہاں بالترتیب، امیر اور غریب طبقات کے صارفین رہتے ہیں، تو فائدہ اٹھانے والے بھی اِسی لحاظ سےہی ہوں گے۔ اُن کے بقول، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اِن مراعات کا فائدہ غریب کو ہو بھی رہا ہے یا نہیں؟ ’ساتھ ہی،حکومت کا یہ کہنا کہ ہم سبسڈی چونکہ یوٹلٹی اسٹورز کے ذریعےدیتے ہیں، اِس لیے عام مارکیٹوں میں قیمتوں میں استحکام آتا ہے۔ لیکن، اُن کے بقول، ’ اِس طرح کا استحکام کبھی نظر نہیں آیا؟‘
اُدھر، گروسرز ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری، فرید قریشی کا کہنا تھا کہ سارے شہر میں 65سے 70یوٹلٹی اسٹورز ہیں جب کہ عام دوکانوں کی تعداد تقریباً 20000ہے۔ یوٹلٹی اسٹورز کی تعداد محدود ہے اِس لیے رعایتی نرخ کا فائدہ ایک محدود تعداد کو پہنچ سکتا ہے۔
لیکن، سوال یہ ہے کہ آخر عام بازار میں رمضان کے مہینوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہی کیوں ہے؟
فرید قریشی کا کہنا تھا کہ طلب اور رسد کا اصول عمل میں آتا ہے یعنی جب طلب بڑھتی ہے تو لازمی طور پرقیمتیں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔
اِس سلسلے میں اُنھوں نے رمضان میں کھجور، کابلی چنہ، چنے کی دال اور بیسن کی طلب کا ذکر کیا اور کہا کہ حکومت کے پاس رسد کی صورتِ حال کے اعداد و شمار ہونے چاہئیں، جو کہ، اُن کے بقول، موجود نہیں ہوتے۔