لیبیا کے سابق حکمراں معمر قذافی کی موت پر پاکستان میں ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو ان سے ہمدردی ہے اور وہ اسے” شہید “قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض کا خیال ہے کہ قذافی کی موت لیبیا میں ”ایک نئی اور چمکتی صبح جمہوریت“ کا آغاز ہے۔جو پاکستانی حلقے امریکہ مخالف سوچ رکھتے ہیں ان کے نزدیک قذافی کی موت کا سبب بننے والے حالات امریکہ کے پیدا کردہ ہیں ۔
ان کے نزدیک صرف یہی امرقابل تعریف ہے کہ قذافی کے نظریات میں امریکہ کے لئے ہمدردی نہیں تھی۔ان حلقوں کو خدشہ ہے کہ باغیوں کی قومی عبوری کونسل مختلف دھڑوں پر مشتمل ہے جو قذافی کے خلاف متحد تھے ۔ مشرقی لیبیا میں باغیوں کے قبضے کے علاقے میں عبوری انتظامیہ پہلے ہی تشکیل دی جا چکی ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کے یہ دھڑے آپس میں برسر پیکار ہو جائیں ۔
اس کے برعکس جو لوگ قذافی کی موت کو لیبیا کی بقاء قرار درہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب لیببا میں ظلم کے خلاف لب کشائی کی اجازت ہو گی ، مخالفین کو زندہ رہنے کا حق ہو گا ، عوامی حکومت عوام کی خدمت کرے گی ۔
قذافی کے دور اقتدار میں پاکستان اور لیبیا کے تعلقات میں اتار چڑھاوٴ
پاکستان اور لیبیا کے درمیان تعلقات میں حالات اورضروریات کے مطابق اتار چڑھاوٴآتے رہے ہیں ۔مجموعی طور پر یکھا جائے تو پاکستان اور لیبیا کے تعلقات اچھے رہے ہیں ا ور اسی سبب معمر قذافی گزشتہ کئی عشروں سے پاکستانی میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز رہے ۔
قذافی کے دور حکومت کے مختلف ادوار میں پاکستانی قائدین لیبیا کا دورہ کرتے رہے۔ صدر آصف علی زرداری پاکستان کی جانب سے مئی 2009ء میں لیبیا جانے والے اب تک کے آخری سربراہ مملکت ہیں۔دورے کے موقع پر پاک لیبیا اسٹریٹجک تعلقات کو وسعت دینے کے لئے دفاعی ، تعلیم ، افرادی قوت کے تبادلے ، صحت، تجارت، زراعت، توانائی، تیل و گیس ،بینکنگ اور تعمیرات کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے مفاہمت کی یادداشتوں سمیت 7سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔
اس سے قبل 1971ء کی جنگ کے بعد لیبیا نے پاکستان کی معاشی امداد کی تاہم 4 اپریل 1979 میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد پاک لیبیا تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے ۔ صدر آصف علی زرداری نے مئی دو ہزار نو کے اوائل میں لیبیا کا دورہ کیا اوردو مرتبہ معمر قذافی سے ملاقاتیں کیں ۔
پاکستان میں معمر قذافی کی مقبولیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ایٹمی اثاثوں کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کی ۔ لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں قذافی نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بھر پور حمایت میں آواز بلند کی، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بھی قرار دیا جس کے بعد لاہور کرکٹ اسٹیڈیم کا نام ان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ”قذافی اسٹیڈیم “رکھ دیا گیا ۔
معمر قذافی کی پاکستان میں مقبولیت اس وقت کم ہوئی جب بائیس فروری دو ہزار گیارہ کو اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” عوام میری حمایت میں سڑکوں پر نکل آئیں اور نشے میں دھت لال بیک اور چوہوں کی مانند مظاہرین کوکچل کر رکھ دیں ۔کیا تم چاہتے ہو کہ ہم پر بھی بمباری ہوکہ تمہارا ملک افغانستان یا پاکستان بن جائے ؟“اس خطاب میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا جس پر پاکستانی عوام میں سخت رد عمل پایا گیا ۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے ہی عوام کو چوہے اورلال بیگ قرار دینے کی بھی سخت مذمت کی گئی ۔
صدر زرداری نے قذافی کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی تھی جوانہوں نے بخوشی قبول کی تھی لیکن وہ اس وقت یہ نہیں جانتے تھے کہ شاید وہ دورہ پاکستان کبھی نہیں کر سکیں گے ۔