پاکستان نے کہا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد میں شامل ہونے کے لیے سعودی حکومت نے پاکستان سے بھی رابطہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم سے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں جب پوچھا گیا کہ کیا سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کے لیے قائم اتحاد میں پاکستان سے بھی اپنے فوجی یا جیٹ طیارے فراہم کرنے کے سلسلے میں رابطہ کیا گیا، تو ترجمان نے ان خبروں کی تصدیق کی۔
"ہاں میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ سعودی عرب نے اس بارے میں پاکستان سے رابطہ کیا ہے اور اس معاملے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔"
تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ سعودی عرب نے کب اور کس سطح پر پاکستان سے اس بارے میں رابطہ کیا اور سعودی قیادت میں قائم اتحاد میں پاکستانی فوج کے شمولیت کرنے یا نا کرنے کے حوالے سے کب تک فیصلہ متوقع ہے۔
یمن میں پاکستانی سفارت خانہ کو بند کرنے سے متعلق خبروں اور وہاں مقیم پاکستانیوں کے تحفظ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستانی سفارت خانے کو بند کرنے کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم اُن کے بقول صورت کے بارے میں سفارتی عملے کو متنبہ کر دیا گیا ہے۔
’’اگر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ سفارتی عملے کو وہاں سے نکالنے کی ضرورت پڑی تو انہیں نکال لیا جائے گا۔‘‘
سعودی عرب نے یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف بدھ کو فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا جو جمعرات کو بھی جاری رہا۔
امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل الجبیر نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ کارروائی بین الاقوامی حمایت یافتہ یمن کے صدر عبد الربو منصور ہادی کی درخواست پر کی جا رہی ہے۔
مصر اور اردن کی حکومتوں نے بھی تصدیق کی ہے کہ اُن کی فورسز سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد میں حصہ لے رہی ہیں۔
اس سے قبل سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے بھی کہا تھا کہ سوڈان، مراکش اور پاکستان نے بھی ان کارروائیوں میں شرکت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اس آپریشن میں اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجی اور ایک سو لڑاکا طیارے استعمال کرے گا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے قریبی دیرینہ تعلقات ہیں۔ رواں ماہ کے اوائل ہی میں بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
اس دورے کے دوران دونوں رہنماؤں نے خطے سے متعلق اُمور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اتفاق کیا تھا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی مشترکہ دشمن ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے سے سکیورٹی کے شعبے میں تعاون جاری رکھیں گے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود بھی سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔