پاکستان نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں تعینات اپنی ایک سفارتکار کو واپس بلا لیا ہے۔ اس سفارتکار پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ایک شدت پسند کے ساتھ رابطے میں تھیں۔اطلاعات کے مطابق جمیعت المجاہدین بنگلہ دیش نامی ایک کالعدم تنظیم کے
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سفارتکار فارینہ ارشد پر لگائے کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔
مشتبہ رکن ادریس شیخ نے ڈھاکہ میں ایک عدالت میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ سفارتکار فارینہ ارشد اس کے ساتھ رابطے میں تھیں اور اسے 30,000 ٹکے بھی دیے جن کی مالیت 380 ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
اس بیان کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے غیر رسمی طور پر فارینہ ارشد کو ملک سے چلے جانے کو کہا تھا۔ تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سامنے آنے کے بعد پاکستان نے خود ہی اپنی سفارتکار کو وطن واپس بلا لیا اور انہیں ملک بدر نہیں کیا گیا۔
حال ہی میں ڈھاکہ میں حزب اختلاف کے دو سینیئر رہنماؤں کو جنگی جرائم کے الزامات میں پھانسی دیے جانے پر پاکستان نے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
ان دونوں رہنماؤں پر 1971ء کی جنگ کے دوران نسل کشی اور دانشوروں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام تھا اور خصوصی ٹربیونل نے انھیں 2013ء میں سزائے موت سنائی تھی۔
بنگلہ دیش نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔
بعد ازاں پاکستان نے بنگلہ دیش کے قائم مقام ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے ڈھاکہ کے اسلام آباد کے بارے میں ’’بے بنیاد دعوؤں‘‘ کو سختی سے مسترد کیا تھا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ 1974 میں طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کے تحت بنگلہ دیش نے کہا تھا کہ وہ رحمدلی کے اقدام کے طور پر ایسے مقدمات کی پیروی نہیں کرے گا۔
9 اپریل 1974ء کو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق دونوں ملکوں نے 1971ء کے واقعات کو فراموش کر کے مفاہمت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم بنگلہ دیش کا طویل عرصہ سے مؤقف رہا ہے کہ پاکستان جنگ کے دوران ہونے والے واقعات پر اس سے معافی مانگے۔