پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران 33 فی صد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں جس کے باعث صوبۂ سندھ اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قحط سالی کا خدشہ ہے۔
پاکستان کے محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران بارشوں میں 33 فی صد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور اس میں سب سے زیادہ بلوچستان میں 63 فی صد جب کہ سندھ میں 77 فی صد سے زائد بارشیں کم ریکارڈ کی گئیں۔
محکمۂ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر سے لے کر رواں برس مارچ تک خیبر پختونخوا میں 44 فی صد جب کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں 19 فی صد بارشیں کم ریکارڈ کی گئیں۔
تاہم پنجاب میں بارشیں 46 فی صد معمول کے مطابق ریکارڈ کی گئیں اور اس طرح ملک میں مجموعی طور پر بارشوں میں کمی کی شرح تینتیس اعشاریہ دو فی صد رہی۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ موسمِ سرما سے قبل اور اس کے بعد کم بارشوں کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں معتدل قحط کی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے۔
معتدل قحط کی صورتِ حال پیدا ہونے والے ان اضلاع میں بلوچستان کے 10 اضلاع چاغی، گوادر، ہرنائی، کیچ، خاران، مستونگ، نوشکی، پیشین، پنجگور اور واشوک شامل ہیں۔
اسی طرح صوبۂ سندھ کے ضلع بدین، قمبر شہداد کوٹ، میرپور خاص، عمر کوٹ، سانگھڑ، تھرپارکر، ٹھٹھہ اور سجاول میں معتدل قحط سالی کا خدشہ ہے۔
موسمیاتی اثرات بتاتے ہیں کہ صوبۂ سندھ میں اکتوبر سے مئی تک عام طور پر بارشیں نہیں ہوتیں۔ اس لیے اس دوران معتدل قحط کی صورتِ حال رہے گی۔
سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع قحط کے شکار کیوں؟
پاکستان میں محکمۂ میٹرولوجیکل میں قحط سے متعلق ماہر میٹرولوجسٹ ڈاکٹر شہزادہ عدنان کا کہنا ہے کہ سندھ کے جنوب مشرقی علاقوں عمر کوٹ، سانگھڑ اور تھرپارکر کے علاقوں میں دریائی یا نہری نظام موجود نہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی کوئی بڑا دریائی سلسلہ اور نہری سسٹم بھی موجود نہیں۔
ان کے بقول بلوچستان کی زمین پتھریلی ہے جہاں بارش کے پانی کا رساؤ جلدی ہو جاتا ہے اور اس صوبے میں بارشیں ویسے ہی کم ہوتی ہیں اسی لیے ان دونوں صوبوں کے بعض علاقوں کو قحط سالی کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان زیادہ تر سرمائی بارشوں پر زیادہ انحصار کرتا ہے جہاں 70 سے 80 فی صد بارشیں موسمِ سرما ہی میں ہوتی ہیں جب کہ سندھ کے زیادہ تر علاقے مون سون پر انحصار کرتے ہیں۔
ان کے بقول سندھ اور بلوچستان کی نسبت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کئی دریائی سلسلے اور نہری نظام موجود ہیں۔ اگرچہ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی بھی ہے لیکن وہ اس قدر شدید نہیں ہوتی۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں مون سون کے ساتھ سردیوں کے موسم میں بھی اچھی مقدار میں بارشیں ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر شہزادہ عدنان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان قحط سے ممکنہ متاثر ہونے والے ممالک میں تو پہلے ہی شامل ہے کیوں کہ ملک کا 70 فی صد علاقہ خشک یا بنجر آب و ہوا کا حامل ہے جب کہ حالیہ دنوں میں بارشیں ویسے ہی کم ہوئی ہیں۔
'صورتِ حال مزید گھمبیر شکل اختیار کرسکتی ہے'
واضح رہے کہ ان علاقوں میں قحط کی صورتِ حال پر یہ دوسرا الرٹ ہے، اس سے قبل محکمۂ موسمیات فروری میں بھی اس طرح کے خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔
محکمۂ موسمیات کے حکام کے مطابق موجودہ موسمیاتی پیش گوئی کے مطابق کم بارشوں کی صورتِ حال مزید گھمبیر شکل اختیار کرسکتی ہے اور اس سے زراعت کے ساتھ لائیو اسٹاک پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
محکمۂ موسمیات نے اس صورتِ حال میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ تجویز جاری کی ہے کہ وہ اس صورتِ حال میں پیش بندی اقدامات کریں تاکہ کسی قسم کی تباہی کی صورتِ حال سے بچا جاسکے۔
'قحط کی صورتِ حال بگڑنے میں کرونا کے دوران ہجرت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے'
ماہرین نے اس بات پر بھی خبردار کیا ہے کہ اگر ان علاقوں میں قحط کی صورتِ حال شدت اختیار کرتی ہے اور نوبت وہاں سے لوگوں کی دیگر علاقوں، اضلاع یا شہروں کی جانب ہجرت کی آجاتی ہے تو اس سے کرونا کی موجودہ لہر میں مزید شدت آنے کا احتمال ہوسکتا ہے۔
حکام نے بتایا کہ صورتِ حال پر نظر رکھنے کے لیے بلوچستان اور سندھ حکومت کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے بھی اقدامات شروع کردیے ہیں اور اس کے لیے محکمۂ موسمیات کے ساتھ مل کر صورتِ حال کے پیشِ نظر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2018 میں آنے والے قحط میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 14 لاکھ جب کہ سندھ میں 30 لاکھ کے قریب آبادی متاثر ہوئی تھی جب کہ قحط سے ہلاک ہونے والے مویشیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں جب مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں تو اوسطاً ہر تیسرے سال خشک سالی اور قحط کے باعث بڑی آبادی ہجرت کرتی ہے۔ اس لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر قحط کی وجہ سے اس سال بھی کوئی ایسی بڑی ہجرت ہو تو وہ متعلقہ انتظامیہ کے سرپرستی میں ہو تاکہ کرونا وبا کے پھیلاؤ کے خطرات کو کم کیا جاسکے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے فی الوقت کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں ہے۔
'کم ہوتی بارشیں موسمیاتی تبدیلیوں کی جانب واضح اشارہ ہے؛
ادھر ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ملک میں بارشوں کی ریکارڈ کمی خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔
ممتاز ماحولیاتی کنسلٹنٹ رفیع الحق کا کہنا ہے کہ ہر سال کم ہوتی بارشیں درحقیقت موسمیاتی تبدیلیوں کی جانب ہی اشارہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اب غیر متوقع طور پر سامنے آرہی ہیں جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے بچاؤ کے لیے تیاری ناگزیر ہے۔
ان کے بقول پاکستان کو ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جہاں پالیسی بنانے کی ضرورت ہے وہیں وقت سے پہلے عمل درآمد بھی کرنا ہوگا تاکہ اس کی تباہ کن اور دور رس اثرات سے بچا جاسکے۔