سارہ حسن، شمیم شاہد، عمر فاروق
اسلام آباد سے اغوا ہونے والے پاکستانی پولیس افسر طاہر داوڑ کی لاش طورخم سے پاکستان منتقل کیے جانے کے بعد، پشاور میں اُن کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ بعدازاں، مرحوم کے لواحقین کی جانب سے دوسری نماز جنازہ ادا کی گئی، جس کے بعد میت کو دفنایا گیا۔
قبل ازیں، افغان حکام نے طاہر داوڑ کی میت پاکستانی حکام کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس افسر کی لاش صرف ان کے لواحقین اور قبائلی رہنماؤں کے ہی حوالے کی جائے گی۔
قتل کی تحقیقات کا حکم
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ اغوا ہونے والے پولیس افسر طاہر داوڑ کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
پاکستان کی فوج نے بھی ایس پی طاپر داوڑ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اُن کی ہلاکت سے پاکستان ایک بہادر پولیس افسر سے محروم ہو گیا ہے‘‘۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان نے ٹویٹ کی کہ ’’طاہر داوڑ کو اغوا کے بعد افغانستان منتقل کرنا اور اُس کے بعد افغان انتظامیہ کے رویے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اُن کے قتل میں استعمال ہونے والے ذرائع دہشت گرد تنظمیوں کے وسائل سے کہیں زیادہ ہیں‘‘۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’’پاکستانی حکام کی جانب سے قتل کی تحقیقات جاری ہیں اور وہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز سے کہتے ہیں کہ سرحدی باڑ اور دوطرفہ بارڈر سکیورٹی کے معاملات میں تعاون کریں، تاکہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو‘‘۔
افغان حکام کے اصرار پر حکام نے محسن داوڑ کو سرحد تک جانے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد افغان حکام نے لاش ان کے حوالے کر دی۔
عینی شاہدین کے مطابق، طورخم سے پشاور تک سڑک پر کئی مقامات پر قبائلی عوام کی بڑی تعداد موجود تھی، جو میت لینے کی منتظر تھی۔ حکام نے لاش کی حوالگی کے وقت صحافیوں کو بھی کوریج سے روک دیا تھا۔
منگل کو طاہر داوڑ کے قتل کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد سے اس معاملے پر حکومت کی خاموشی پر سوشل میڈیا میں کڑی تنقید کی جا رہی تھی۔
جمعرات کو وزیرِ اعظم عمران خان نے ٹوئٹر ہر جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ قتل کی تحقیقات کا کام وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے حوالے کیا گیا ہے اور انھیں تحقیقاتی رپورٹ فوری جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے ایس پی طاہر داوڑ کو 27 اکتوبر کو اسلام آباد سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا جس کے بعد اُن کی لاش منگل کو افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ایک دور افتادہ مقام سے ملی تھی۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں ایس پی طاہر داوڑ کی لاش افغانستان سے ملنے کی تصدیق کی تھی۔ دفترِ خارجہ نے میت کو افغانستان میں تعینات پاکستان کے سفارتی عملے کے حوالے کرنے میں تاخیر پر جمعرات کو کابل حکومت سے احتجاج بھی کیا تھا۔
’طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے پنجاب منتقل کیا گیا‘
جمعرات کو سینیٹ میں اس معاملے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے ایوان کو بتایا کہ 13 نومبر کو ایس پی طاہر داوڑ کی لاش کی ویڈیو سامنے آئی تھی جس کے بعد اگلے ہی دن افغان حکومت سے اس بارے میں بات کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے آئی جی اسلام آباد، خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی اور آئی جی کو اس بارے میں انکوائری رپورٹ دینے کا حکم دیا ہے۔
وزیرِ مملکت نے سینیٹ کو بتایا کہ ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کرنے کے بعد پنجاب لایا گیا تھا، جہاں انھیں کچھ دن رکھنے کے بعد میانوامی منتقل کیا گیا اور میانوانی میں کچھ دن رکھنے کے بعد انھیں بنوں لایا گیا۔
شہریار آفریدی نے کہا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ ماضی میں بھی "کئی جوانوں کے اس طرح لاپتا ہونے کے بعد اُن کی لاشیں سرحد کے دوسری جانب سے ملی ہیں۔" وزیرِ مملکت نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے سرحد پر نگرانی کا نظام نہیں ہے۔
میت کی حوالگی میں تاخیر پر پاکستان کا احتجاج
اس سے قبل پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا تھا کہ ایس پی طاہر داوڑ کی میت کو پاکستان کے سفارتی عملے کے حوالے کرنے میں تاخیر پر پاکستان نے افغانستان سے احتجاج کیا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ ڈاکٹر فیصل نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں ایک لاش کے ساتھ پاکستانی پولیس افسر کی ملازمت کا کارڈ ملنے کی اطلاعات پر پاکستانی حکام نے کابل سے رابطہ کیا تھا۔
ادھر، طاہر داوڑ کی ہلاکت کے خلاف پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیم، پی ٹی ایم نے جمعرات 15 نومبر کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔
احتجاجی مظاہروں میں خیبر پختونخوا کے صوبائی دارلحکومت پشاور سمیت دیگر اضلاع، سوات، چارسدہ، مردان، صوابی، بنوں، ڈی آئی خان، ٹانک اور بونیر کے علاوہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، کوئٹہ اور کراچی کے پریس کلبز کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
پشاور میں تنظیم کی رکن جمیلہ گیلانی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا احتجاج پاکستانی ریاست اور اداروں کے خلاف ہے، کیونکہ کسی بھی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرے۔ لیکن پاکستانی ریاست اس میں ناکام رہی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’گذشتہ 40 سالوں سے عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں سے لے کر نقیب اللہ محسود تک اور اب یہ طاہر داوڑ (کے معاملے میں)‘‘۔
جمیلہ گیلانی نے کہا کہ ’’ہماری تنظیم اِس ظلم کا نتیجہ ہے‘‘۔
اس موقع پر پی ٹی ایم کے رکن ضیاالدین نے کہا کہ ’’اسلام آباد جیسے پر امن اور محفوظ شہر سے ایک شخص کو اٹھا کر 30 سے زائد چیک پوسٹوں سے گزار کر افغانستان میں قتل کر دیا جائے تو یہ ریاست کے لئے شرم کا مقام ہے‘‘۔
انہوں نے پاکستانی اداروں سے سوال کیا کہ ’’ریاست کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ اس قتل کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟‘‘۔
ضیا الدین نے کہا کہ ’’ریاست کے مقابلے میں دہشتگرد اتنے طاقت ور کیوں ہیں؟‘‘