پاکستان کی وزارت داخلہ نے ملک میں کام کرنے والی 23 بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں یعنی ’’آئی این جی اوز‘‘ کو کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
وزارتِ داخلہ نے 73 ’’آئی این جی اوز‘‘ کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی ہے جب کہ 20 بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں فیصلہ مؤخر کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو وزیر داخلہ کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ’’آئی این جی اوز‘‘ کی رجسٹریشن کو حتمی شکل دینے سے متعلق پالیسی پر غور کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اجلاس کے دوران کہا کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن ریاست کی سلامتی کے حوالے سے انتہائی اہم ہے اور اُن کے بقول ’’آئی این جی اوز‘‘ کے لیے قواعد وضع کرنا ایک اہم کامیابی ہے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں جنہیں وزارت داخلہ نے رجسٹریشن کے عمل کے دوران منظوری نہیں دی، انہیں وزارت کے سامنے اپیل کرنے کا حق دیا جائے گا۔
جن بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، تاحال سرکاری طور پر اُن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔
لیکن وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ منظور شدہ اور غیر منظور شدہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی فہرست کو حتمی شکل دینے کے بعد وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا جائے گا۔
عالمی این جی اوز سے وابستہ بعض افراد کا موقف ہے کہ رجسٹریشن کا نظام نہایت پیچیدہ اور وقت طلب ہے۔
ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ نامی غیر سرکاری تنظیم کے ایگزیکٹو ڈٓائریکٹر محمد تحسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُنھیں اس سارے عمل پر تحفظات ہیں۔
’’میں حیران ہوں کہ جو گروپ بیٹھ کر یہ سارے فیصلے کرتا ہے، اُس میں پاکستانی سول سوسائٹی کے نمائندہ کسی عورت یا مرد کو نہیں بٹھایا گیا ہے۔‘‘
محمد تحسین کہتے ہیں کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو ملک میں کام کی اجازت دینے اور اُن کے کام کو سہل بنانے سے عالمی سطح پر پاکستان کی نیک نامی ہو گی۔
دو سال قبل پاکستان کی وفاقی حکومت نے بین الاقوامی این جی اوز کو ملکی قوانین کے دائرے میں لانے کے عمل کا آغاز کیا تھا اور ان کے اندراج کا ایک نیا نظام متعارف کرایا تھا تاکہ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکے۔
اسی سلسلے میں پاکستان میں کوائف کا اندارج کرنے والے قومی ادارے ’نادرا‘ سے کہا گیا تھا کہ ملک میں کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی نگرانی کے لیے آن لائن نظام وضع کیا جائے۔
پاکستان کی حکومت نے 2015ء کے وسط میں بچوں کے لیے کام کرنی والی بین الاقوامی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کا اسلام آباد کا دفتر بھی چند ہفتوں کے لیے سیل کر دیا تھا مگر بعد میں اسے چند مخصوص علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔