پاکستان نے بھارتی صدر کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اس بات کا اعلان پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ویڈیو بیان میں کیا۔
شاہ محمود نے کہا کہ ہندوستان سے درخواست آئی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو 20 تاریخ کو جرمنی جانے اور 28 تاریخ کو واپس آنے کے لئے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ پاکستان نے جموں و کشمیر کی صورت حال اور ہندوستان کے رویے کو سامنے رکھتے ہوئے اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارتی ہائی کمشنر کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔
بھارت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی نیویارک اور جرمنی روانگی کے لئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت کے لئے درخواست دی تھی۔
نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے 20 ستمبر کو روانہ ہونا ہے جس کے لئے پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنا چاہتے ہیں کیونکہ متبادل راستہ کافی طویل ہے۔
پاکستانی حکام نے اس سلسلے میں انکار کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بعد کیا۔
پاکستان اس سے قبل بھارتی صدر کو بھی اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر چکا ہے۔
بھارت کا ردعمل
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان راویش کمار نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہمیں پاکستان کی حکومت کی جانب سے گزشتہ دو ہفتوں میں دوسری بار ایک وی وی آئی پی خصوصی فلائٹ کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار پر افسوس ہوا ہے، کیونکہ کوئی بھی نارمل ملک یہ اجازت عام معمول کے مطابق دے دیتا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر ایک طے شدہ طریق کار سے انحراف کے اپنے فیصلے اور اپنے یک طرفہ اقدام کی وجوہات کو غلط طور پر پیش کرنے کی پرانی عادت پر بھی دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
اس سے قبل پاکستان نے اس سال کے شروع میں پلوامہ واقعہ کے بعد بھارتی ایئر فورس کے طیاروں کی جانب سے سرحد پار کر کے بم گرانے کے بعد فروری کے آخر سے جولائی تک بھارتی طیاروں کے لئے فضائی حدود کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی تھی جس کے باعث بھارتی ائیرلائنز کا آپریشن مشکلات کا شکار ہو گیا تھا اور یورپ و امریکہ سمیت کئی روٹس پر ائیرلائنز کا اپنا آپریشنز محدود کرنا پڑا تھا۔
اگست کے شروع میں دہلی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پاکستان کے اندر ایک بار پھر یہ بحث جاری ہے کہ بھارتی کمرشل طیاروں کو ایک بار پھر اپنی فضائی حدود کے استعمال سے روک دینا چاہیئے۔