رسائی کے لنکس

پاکستان میں داعش کی کوئی منظم موجودگی نہیں: وزارت خارجہ


دفتر خارجہ
دفتر خارجہ

تاہم بعض قانون ساز اور مبصرین کہتے ہیں کہ ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں داعش موجود ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک مرتبہ پھر ملک میں داعش کی منظم موجودگی سے انکار کیا ہے مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو داعش کے خطرے کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیے واضح پالیسی تشکیل دینی چاہیئے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد نفیس زکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ ’’ہم اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی منظم وجود نہیں۔‘‘

اس سے قبل پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ چند افراد داعش کا نام استعمال کر کے توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس تنظیم کا ملک میں کوئی وجود نہیں۔

تاہم بعض قانون ساز اور مبصرین کہتے ہیں کہ ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں داعش موجود ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے پہلی مرتبہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان سے لگ بھگ 100 افراد نے داعش میں شمولیت کے لیے عراق اور شام کا سفر کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب سے داعش سے وابستہ 42 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو لوگوں کو اس شدت پسند تنظیم کی طرف راغب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

بدھ کو انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان نے بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور کو بتایا کہ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں داعش کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں ملک کے مختلف حصوں میں ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں پر حملے کیے گئے جہاں حملہ آور پمفلٹ یعنی تحریری پرچے چھوڑ گئے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ حملے داعش کی جانب سے کیے گئے۔

عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر الیاس احمد بلور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں پہلے سے موجود شدت پسند عناصر اب داعش میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

’’داعش کوئی سپیشل قوم نہیں آئی کہیں سے یہاں پہ۔ جو طالبان تھے ان میں چند داعش بن گئے ہیں اور چند طالبان رہ گئے ہیں۔ داعش پاکستان میں حقیقتاً اتنے منظم نہیں ہیں جتنی منظم وارداتیں طالبان کر رہے ہیں۔ لیکن ہیں ضرور۔ آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے۔‘‘

تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں طالبان نے اپنے پاؤں مضبوط کیے ہیں جس سے پاکستان میں بھی اس تنظیم کے پھیلنے کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے جس کے باعث اپنی تنظیموں سے الگ ہونے والے چند سخت گیر عناصر داعش میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

’’وہ عناصر جو اپنا ذہن تبدیل نہیں کر رہے یا ان کو یہاں گائیڈ لائن نہیں مل ہی وہ اپنے آپ کو داعش کا فطری حامی سمجھتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ بہت قوی امکانات ہیں، بہت زرخیز زمین ہے پاکستان داعش کے پنپنے کے لیے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت کو اس کی موجودگی کو تسلیم کرنا چاہیئے اور جو ان کا دائرہ کار ہے شدت پسندی، انتہا پسندی اور تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ان میں داعش کو بھی شامل کرنا چاہیئے۔‘‘

حالیہ ہفتوں میں افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں داعش کے ٹھکانوں پر امریکہ نے ڈرون حملے اور فضائی کارروائیاں کی ہیں جن میں متعدد شدت پسندوں اور داعش کا مواصلاتی نظام تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔

XS
SM
MD
LG