پاکستان میں حکومت اور مبصرین نے پاک-سعودی عرب جوہری تعاون سے متعلق حالیہ خبر کی صریحاً تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاض کی درخواست پر جوہری ہتھیاروں کی فوری فراہمی کے لیے پاکستان کی مکمل تیاری کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے رواں ہفتے اپنی خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے عمل میں پاکستان کی معاونت کر رہا ہے اور ریاض سمجھتا ہے کہ وہ ان میں سے کچھ ہتھیار بوقتِ ضرورت حاصل بھی کر سکتا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے جمعرات کو دیر گئے جاری ہونے والے ردِ عمل میں اس خبر کو ’’صریحاً بے بنیاد اور ضرر رساں‘‘ قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ایک ذمہ دار جوہری قوت کے طور پر پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے، اور اس کے جوہری پروگرام کا مقصد خالصتاً ملکی دفاع ہے۔
’’پاکستان جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ذمہ دار ریاست ہے جہاں (اس سلسلے میں) کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ایک مضبوط ڈھانچہ اور برآمد کی نگرانی سے متعلق مربوط قوانین موجود ہیں۔ پاکستان (جوہری ہتھیاروں کے) عدم پھیلاؤ سے متعلق مقاصد اور جوہری اثاثوں کے تحفظ اور سلامتی کی تائید کرتا ہے۔‘‘
مبصرین نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے کی خبر کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی سامان حرب کے برعکس جوہری ہتھیاروں کو قابلِ استعمال حالت میں رکھنے کے لیے پیچیدہ بنیادی ڈھانچے اور ماہرین کے علاوہ مجموعی دفاعی حکمتِ عملی میں بھی ان کی موجودگی اور ممکنہ استعمال کی گنجائش کا ہونا ضروری ہے۔
دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے وائس آف امریکہ سے جمعہ کو گفتگو کرتے ہوئے کہا جوہری ہتھیار وہ واحد ہتھیار ہے جس کے لیے مکمل نظام درگار ہوتا ہے۔
’’آپ کو بنیادی ڈھانچہ، ماہرین، فیصلہ سازی کا نظام، بہت ساری چیزیں چاہیئے ہوتی ہیں۔ اس کا استعمال بھی مختلف ہے ... یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک سعودی بریگیڈ کو جا کر یہ (جوہری) ہتھیار دے دیں اور وہ بریگیڈ اتنی ایڈوانسنڈ ہو کہ اس کو سب مراحل کا علم ہو۔‘‘
ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی یہ نہیں چاہے گا کہ دنیا میں مزید کسی ملک کو یہ صلاحیت حاصل ہو، جبکہ جوہری ہتھیار کسی دوسرے ملک کو دینا بھی بظاہر ناممکن ہے کیوں کہ یہ ’’بیش قیمت قومی اثاثے‘‘ ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بیان میں یہ بھی واضح کیا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہِ واشنگٹن کے موقع پر امریکہ کے صدر براک اوباما نے ’’جوہری سلامتی سے متعلق پاکستان کے عزم پر اعتماد کا اظہار کیا اور تسلیم کیا کہ پاکستان جوہری تحفظ کے سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے‘‘۔
مئی 1998ء میں بھارت کی جانب سے جوہری تجربات کے جواب میں پاکستان نے بھی ایسے ہی کامیاب تجربات کیے تھے، اور حکومتِ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام خطے میں امن کی ضمانت ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے رواں ہفتے اپنی خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے عمل میں پاکستان کی معاونت کر رہا ہے اور ریاض سمجھتا ہے کہ وہ ان میں سے کچھ ہتھیار بوقتِ ضرورت حاصل بھی کر سکتا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے جمعرات کو دیر گئے جاری ہونے والے ردِ عمل میں اس خبر کو ’’صریحاً بے بنیاد اور ضرر رساں‘‘ قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ایک ذمہ دار جوہری قوت کے طور پر پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے، اور اس کے جوہری پروگرام کا مقصد خالصتاً ملکی دفاع ہے۔
’’پاکستان جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ذمہ دار ریاست ہے جہاں (اس سلسلے میں) کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ایک مضبوط ڈھانچہ اور برآمد کی نگرانی سے متعلق مربوط قوانین موجود ہیں۔ پاکستان (جوہری ہتھیاروں کے) عدم پھیلاؤ سے متعلق مقاصد اور جوہری اثاثوں کے تحفظ اور سلامتی کی تائید کرتا ہے۔‘‘
مبصرین نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے کی خبر کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی سامان حرب کے برعکس جوہری ہتھیاروں کو قابلِ استعمال حالت میں رکھنے کے لیے پیچیدہ بنیادی ڈھانچے اور ماہرین کے علاوہ مجموعی دفاعی حکمتِ عملی میں بھی ان کی موجودگی اور ممکنہ استعمال کی گنجائش کا ہونا ضروری ہے۔
دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے وائس آف امریکہ سے جمعہ کو گفتگو کرتے ہوئے کہا جوہری ہتھیار وہ واحد ہتھیار ہے جس کے لیے مکمل نظام درگار ہوتا ہے۔
’’آپ کو بنیادی ڈھانچہ، ماہرین، فیصلہ سازی کا نظام، بہت ساری چیزیں چاہیئے ہوتی ہیں۔ اس کا استعمال بھی مختلف ہے ... یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک سعودی بریگیڈ کو جا کر یہ (جوہری) ہتھیار دے دیں اور وہ بریگیڈ اتنی ایڈوانسنڈ ہو کہ اس کو سب مراحل کا علم ہو۔‘‘
ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی یہ نہیں چاہے گا کہ دنیا میں مزید کسی ملک کو یہ صلاحیت حاصل ہو، جبکہ جوہری ہتھیار کسی دوسرے ملک کو دینا بھی بظاہر ناممکن ہے کیوں کہ یہ ’’بیش قیمت قومی اثاثے‘‘ ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بیان میں یہ بھی واضح کیا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہِ واشنگٹن کے موقع پر امریکہ کے صدر براک اوباما نے ’’جوہری سلامتی سے متعلق پاکستان کے عزم پر اعتماد کا اظہار کیا اور تسلیم کیا کہ پاکستان جوہری تحفظ کے سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے‘‘۔
مئی 1998ء میں بھارت کی جانب سے جوہری تجربات کے جواب میں پاکستان نے بھی ایسے ہی کامیاب تجربات کیے تھے، اور حکومتِ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام خطے میں امن کی ضمانت ہے۔