پاکستان میں اقلیتی ہندو برداری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ عدم تحفظ کے احساس کے باعث صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد سے درجنوں ہندو خاندان بھارت نقل مکانی کر گئے ہیں۔
رواں ہفتے جانے والے ان افراد کی مجموعی تعداد کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم، پاکستان ہندو کونسل، کے سرپرست ڈاکٹر رمیش کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیکب آباد میں ان کے نمائندوں نے اطلاع دی ہے کہ بھارت جانے والے ہندو خاندانوں کی تعداد 60 ہے۔ ’’مگر میرے پاس کوئی مصدقہ اعداد و شمار نہیں ہیں۔‘‘
حکمران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رمیش لال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیکب آباد سے ہندو خاندانوں کی نقل مکانی کا انھیں بھی عمل ہوا ہے۔
لیکن ان کا بھی کہنا تھا وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ علاقے چھوڑ کر جانے والے افراد کی تعداد کتنی ہے۔
رمیش لال نے کہا کہ پاکستان میں 30 لاکھ ہندو آباد ہیں اور حکومت ان کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم پر قائم ہے۔
’’جب بھی کوئی ایشو ہوتا ہے تو صدر صاحب اور وزیر اعظم اس کا نوٹس لیتے ہیں۔‘‘
اُن کے بقول جب بھی کسی کو کوئی تکلیف ہو تو وہ اپنی برادری کے نمائندوں سے رابطے میں ہوتے ہیں۔
’’اپنی خوشی سے کوئی ادھر اُدھر جاتا ہے تو اس کو (ہم) نہیں روک سکتے۔ حکومت کی طرف سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔‘‘
واضح رہے کے حالیہ دنوں میں صوبہ سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرکے اُن کی مسلمان لڑکوں سے شادی کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں، جب کہ بلوچستان میں ہندو تاجروں کو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
رواں ہفتے جانے والے ان افراد کی مجموعی تعداد کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم، پاکستان ہندو کونسل، کے سرپرست ڈاکٹر رمیش کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیکب آباد میں ان کے نمائندوں نے اطلاع دی ہے کہ بھارت جانے والے ہندو خاندانوں کی تعداد 60 ہے۔ ’’مگر میرے پاس کوئی مصدقہ اعداد و شمار نہیں ہیں۔‘‘
حکمران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رمیش لال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیکب آباد سے ہندو خاندانوں کی نقل مکانی کا انھیں بھی عمل ہوا ہے۔
لیکن ان کا بھی کہنا تھا وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ علاقے چھوڑ کر جانے والے افراد کی تعداد کتنی ہے۔
رمیش لال نے کہا کہ پاکستان میں 30 لاکھ ہندو آباد ہیں اور حکومت ان کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم پر قائم ہے۔
’’جب بھی کوئی ایشو ہوتا ہے تو صدر صاحب اور وزیر اعظم اس کا نوٹس لیتے ہیں۔‘‘
اُن کے بقول جب بھی کسی کو کوئی تکلیف ہو تو وہ اپنی برادری کے نمائندوں سے رابطے میں ہوتے ہیں۔
’’اپنی خوشی سے کوئی ادھر اُدھر جاتا ہے تو اس کو (ہم) نہیں روک سکتے۔ حکومت کی طرف سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔‘‘
واضح رہے کے حالیہ دنوں میں صوبہ سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرکے اُن کی مسلمان لڑکوں سے شادی کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں، جب کہ بلوچستان میں ہندو تاجروں کو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔