پاکستان کے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیدوار کے چیئرمین لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری تو آئی ہے لیکن اُن کے بقول روس سے ہتھیاروں کی ممکنہ خریداری فوری طور پر ممکن نہیں کیوں کہ اس کے لیے بہت سے پہلوؤں پر غور اور حکمت عملی ضرورت ہوتی ہے۔
’’دیکھیں ۔۔۔وقت تو لگتا ہے یہ چیزیں جلدی فائنالائز نہیں ہوتیں پہلے تو پاکستان کو یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں کتنا فائنانس کر سکتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے ماسکو میں ہونے والی ساتویں بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
بھارتی اخبار ’دی اکنامک ٹائمز‘ نے 10 اپریل کو اپنی خبر میں کہا تھا کہ پاکستان کے وزیر دفاع نے روسی میڈیا کو بتایا کہ اسلام آباد، ماسکو سے جدید عسکری سامان، بشمول ائیر ڈیفنس سٹسم، ٹینک اور لڑاکا جہاز کی خریداری کے لیے براہ راست بات کر رہا ہے۔
اخبار ’دی اکنامک ٹائمز‘ نے نام ظاہر کیے بغیر ایک روسی عہدیدار کے حوالے سے کہا کہ روس ایسا سامان پاکستان کو فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اُدھر پاکستانی وزارت دفاع کی طرف سے خرم دستگیر خان کی اپنے روسی ہم منصب جنرل سرگئی شواہگو سے ہونے والی ملاقات کی جو تفصیلات فراہم کی گئی اُن میں ہتھیاروں کی خریداری کے بارے میں کسی بات چیت کا ذکر نہیں ہے۔
البتہ بیان کے مطابق پاکستان اور روسی وزراء دفاع نے وفود کی سطح پر رابطے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا تاکہ پاکستان اور روس دفاعی معاملات کے بارے میں باقاعدگی اور جامع تبادلہ خیال کرسکیں۔
پاکستان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیدوار کے چیئرمین سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ ماضی کی تلخیوں کے بعد اب اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اُن کے بقول عسکری سازوسامان کی خریداری وقت طلب معاملہ ہے۔
’’روس کے ساتھ بہت سی باتوں پر ہمارا رابطہ ہے ۔۔۔ ہم اتنی جلدی میں نہیں ہیں کہ ہارڈویئر فوراً خریدیں۔ ہارڈ ویئر خریدنے کے لیے آپ کو زرمبادلہ اور فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ روس کی طرف سے بڑا حوصلہ افزا قسم کا جواب ہے اور ہمیں جو چیز سوٹ کرے گی اپنے دفاع کے لیے وہ ہم ان سے لیں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ عسکری سامان کی خریداری وقت طلب کام ہے اور سینیٹر عبدالقیوم نے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’وقت تو لگتا ہے یہ چیزیں جلدی حتمی شکل اختیار نہیں کرتیں۔‘‘
سینیٹر قیوم نے کہا کہ ’’پہلے تو پاکستان کو یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں اور یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا چاہیے۔۔۔ نمبر ٹو جب آپ مذاکرات کرتے ہیں تو پھر وقت لگتا ہے کہ کیا شرائط اور طریقہ ہو گا۔۔۔۔ تیسری بات یہ ہوتی ہے ہتھیاروں کے ٹرائل ہوتے ہیں۔ اس میں وقت لگتا ہے تو یہ ایک لمبا عمل ہوتا ہے اور پھر جب معاملات طے پا جاتے ہیں تو پھر خریدے گئے ہتھیاروں کی تیاری میں وقت لگتا ہے۔‘‘
پاکستان کا انحصار امریکہ سے خریدے گئے اسلحے پر رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں چین کے ساتھ بھی دفاعی شعبے میں اضافہ ہوا ہے جن میں چین کے اشتراک سے لڑاکا طیاروں ’جے ایف 17 تھنڈر‘ کی پاکستان میں تیاری بھی شامل ہے۔
ماسکو اور اسلام آباد کے تعلقات میں 2014ء کے بعد سے نمایاں بہتری آئی ہے۔
اسی سال روس نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی اٹھا لی تھی جس کے بعد روس نے پاکستان کو لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 2016ء اور 2017ء میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہو چکی ہیں جب کہ گزشتہ سال پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی روس کا دورہ کیا تھا۔