سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے چند روز قبل پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا تھا جس میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم کے علاوہ عمران خان کو سعودی عرب کے دورے کی بھی دعوت دی گئی تھی جسے عمران خان نے قبول کر لیا تھا۔
گو کہ محمد بن سلمان نے ٹیلی فون کال میں کرونا وبا کا شکار ہونے والے وزیرِ اعظم عمران خان سے اُن کی خیریت دریافت کی تھی۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق محمد بن سلمان کے رابطے کے بعد گزشتہ ایک سال سے تناؤ کا شکار دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ تنازع کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک کی جانب سے پاکستانی مؤقف کی کھل کر حمایت نہ کرنے پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان کے سرکاری حکام کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان جلد سرکاری دورے پر سعودی عرب جائیں گے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ آنے کے بعد سعودی عرب کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی کا امکان ہے۔ لہذٰا بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال کے تناظر میں سعودی عرب اور پاکستان دوبارہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔
ایران میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق سفارت کار آصف درانی کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کے آنے کے بعد سعودی عرب کی خارجہ پالیسی بھی تبدیل ہو رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سعودی عرب سے یہ گلہ تھا کہ تنازع کشمیر پر اس نے پاکستانی مؤقف کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی اس معاملے پر اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس بلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں نئی صف بندی بھی ہو رہی ہے اور چین کا خطے میں ابھرتا کردار بھی پاکستان اور سعودی عرب میں نئی قربت کی وجہ ہو سکتا ہے۔
آصف درانی کے مطابق اگرچہ تاریخی اعتبار سے پاکستان سعودی عرب تعلقات میں پختگی پائی جاتی ہے تاہم حالیہ اعلیٰ سطح کے رابطوں اور وزیرِ اعظم کے متوقع دورۂ ریاض سے شکوک و شبہات دور ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے لیے پاکستان کی اہمیت دو لحاظ سے بہت زیادہ اہم ہے ایک پاکستانی تارکینِ وطن کے معیشت میں کردار اور دوسرا سعودی عرب کے دفاع اور سلامتی کے معاملات میں پاکستان کا کردار ہے۔
تجزیہ کار اے ایچ نیئر کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں خلیجی ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے جب کہ سعودی عرب اور اسرائیلی قیادت کے رابطوں کی بھی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔
اُن کے بقول اس تناظر میں خطے کی سیاست اور عالمی منظرنامے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ لہذٰا سعودی عرب، پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لے رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اے ایچ نیئر نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر خلیجی ممالک سے تنازع کشمیر پر اسلام آباد کے مؤقف کی حمایت نہ کرنے پر شکایت کی جس کی وجہ سے خلیجی ممالک کے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید پیچیدہ ہو گئے۔
خیال رہے کہ عمران خان کی حکومت نے 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب سے تین ارب ڈالر قرض لیا تھا تاہم گزشتہ سال سعودی عرب نے اس رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تھا۔
پاکستان نے چین کی مدد سے گزشتہ سال ایک ارب ڈالرز کی رقم ادا کر دی تھی جب کہ باقی ماندہ رقم بھی جلد لوٹانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اے ایچ نیئر کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے حالیہ رابطوں کے باوجود تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی کی جلد توقع نہیں کرنی چاہیے۔
ان کے مطابق پاکستان معاشی اعتبار سے اور عالمی فورمز پر سعودی عرب پر مکمل انحصار نہیں کرسکتا اور ریاض بھی اپنی سلامتی کے لیے پاکستان کے علاؤہ انحصار کی پالیسی پر گامزن ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ وزیرِاعظم عمران خان کے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو لکھے گئے خط کے جواب میں تھا جس میں انہوں نے ماحولیاتی تحفظ کی غرض سے سعودی اقدامات کے لیے پاکستان کی جانب سے تعاون کی پیش کش کی تھی۔
عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے ولی عہد کے گرین سعودی عرب اور گرین مڈل ایسٹ منصوبے کی بھی تعریف کی۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے بحرین کے ولی عہد سلمان بن حماد بن عیسی الخلیفہ کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔
بحرینی ولی عہد نے کرونا وائرس کے شکار عمران خان سے صحت کی دریافت کے لیے فون کیا تھا۔
دسمبر 2019 میں بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسی الخلیفہ نے عمران خان کو ریاست کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا تھا۔