پاکستان نے کہا ہے کہ امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب غیر قانونی تارکینِ وطن کی ملک بدری کی پالیسی بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے یہ بات جمعے کو امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے بیان سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔
حال ہی میں 'یو ایس سی آئی آر ایف' نے ایک بیان میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ اور احمدی کمیونٹی پر ہونے والے مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کی بے دخلی کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی پاکستان کے قوانین کے عملی نفاذ کی خواہش کا اظہار ہے۔
یاد رہے کہ حکومتِ پاکستان نے اکتوبر کے اوائل میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کو رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کے لیے یکم نومبرتک کی مہلت دی تھی۔ اس مہلت کے ختم ہونے کے بعد پاکستان میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو، جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے، ملک بدر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستانی حکومت ان مذہبی اقلیتوں کو زبردستی افغانستان بھیج سکتی ہے جو طالبان دور میں تشدد سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کر پناہ کے لیے پاکستان پہنچے تھے۔
کمیشن نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر پاکستان سے بات چیت جاری رکھے اور اسلام آباد سے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے اصرار کرے۔
بعض مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی پاکستان کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تارکینِ وطن سے متعلق پالیسی ملکی قوانین کے مطابق ہے اور اس کا اطلاق ان افغان مہاجرین پر نہیں ہو گا جو قانونی دستاویزات کے حامل ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ تارکینِ وطن کی ملک واپسی کے عمل میں ان کی عزت و تکریم کا ٰخیال رکھا جائے۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی تمام متعلقہ حکام کو یہ ہدایت کر چکے ہیں کہ خواتین، بچوں اور معمر افراد کے ساتھ نہایت احترم کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔
پاکستان کے قوانین، امریکی قوانین جیسے ہی ہیں'
پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ غیر ملکی تارکینِ وطن سے متعلق پاکستانی قوانین امریکہ سمیت بہت سے ممالک سے ملتے جلتے ہیں اور پاکستان اپنی اس پالیسی پر پورے اعتماد سے عمل درآمد کر رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسے افغان پناہ گزینوں کا احساس کرے گا جنہیں افغانستان واپسی پر کچھ خدشات ہیں۔
ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ احمدی کمیونٹی سے متعلق امریکی کمیشن نے شاید صورتِ حال کا غلط اندازہ لگایا ہے۔
امریکی کمیشن نے اپنے بیان میں پاکستان میں 1984 سے قبل تعمیر کی گئی احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں سے محراب اور مینار ہٹانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
واضح رہے کہ احمدی خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، تاہم آئینِ پاکستان انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
پاکستان میں 80 کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوانین میں کئی نئی شقیں متعارف کرائی گئی تھیں جن میں غیر مسلموں کو مساجد کی طرز پر عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی ممانعت کی شق بھی شامل تھی۔ تاہم حالیہ عرصے میں احمدی کمیونٹی کی جانب سے یہ شکایات سامنے آئی تھیں کہ اس قانون کا اطلاق 1984 کے بعد ہونے والی تعمیرات پر ہوتا ہے، تاہم اس سے قبل تعمیر کی جانے والی عبادت گاہوں سے بھی مینار اور محراب ہٹائے جا رہے ہیں۔
ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے اس پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قوانین اور آئین تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔
ترجمان نے کہ کسی بھی اقلیت کو نشانہ بنانے والے فرد کے خلاف پاکستان کے قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے اور پاکستان کا قانون اس بارے میں واضح ہے۔
فورم