سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انتخابی اصلاحات کے قانون کے خلاف دائر تمام نو اپیلوں پر رجسٹرار کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے انھیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا کہا ہے۔
یہ قانون گزشتہ ماہ منظور ہونے کے بعد سے ہی اپنی بعض شقوں کی وجہ سے متنازع چلا آ رہا ہے جس میں حزبِ مخالف کو سب سے زیادہ اعتراض اس شق پر ہے جو کسی بھی نا اہل شخص کو کسی سیاسی جماعت کی سربراہی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
پیپلزپارٹی نے اس شق کے خلاف ترمیم پارلیمان کے ایوانِ بالا سے تو منظور کرا لی تھی لیکن ایوانِ زیریں میں عددی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کی طرف سے منگل کو پیش کی جانے والی یہ ترمیم مسترد کر دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی، شیخ رشید اور جمشید دستی سمیت نو فریقین نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراضات لگاتے ہوئے درخواست گزاروں کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ درخواستیں براہ راست سپریم کورٹ میں دائر نہیں کی جا سکتیں۔
بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیلیں چیمبر میں سنیں۔
شیخ رشید کی جانب سے فروغ نسیم جبکہ جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے شیخ احسن الدین اور دیگر درخواست گزار چیف جسٹس کے چیمبر میں پیش ہوئے۔
دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے اعتراضات ختم کردیے اور رجسٹرار آفس کو درخواستوں پر نمبر لگا کر سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا۔
انہوں نے قرار دیا کہ ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کھلی عدالت میں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس کی جانب سے درخواستیں سماعت کے لیے منظور کیے جانے کے بعد اب ایک تین رکنی بینچ ان درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کی کارروائی کی سماعت کرے گا۔
ادھر قومی اسمبلی کے ایک روز قبل ہونے والے اجلاس میں حکمران جماعت نے اس قانون میں تجویز کی جانے والی ترمیم کے خلاف ووٹ دے کر اسے مسترد کر دیا تھا جس پر حزبِ مخالف نے خوب تنقید کی۔
اب اس بِل کی منظوری کے لیے قانونی تقاضے کے مطابق پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں رائے شماری کی جائے گی اور یہ عمل 90 روز کے اندر کیا جانا ضروری ہے۔