پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ملک کی جیلوں میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کے مطابق پیر کو ایک شہری کی درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے چاروں صوبوں کے آئی جیل جیل خانہ جات سے اس بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
ماہرین کی طرف سے جہاں پاکستان میں پانی کی کمیابی کی بڑھتے ہوئے خطرات پر متنبہ کیا جاتا رہا ہے وہیں ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی بھی گمبھیر صورتحال اختیار کر چکی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار بھی مفادِ عامہ کے تحت صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیسز کی سماعت کر رہے ہیں اور گزشتہ ماہ ہی انھوں نے سندھ حکومت سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
طبی ماہرین اور اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ہونے والی اموات میں 30 سے 40 فی صد آلودہ پانی پینے سے ہونے والی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال "یونیسف" کے مطابق پاکستان میں ہر سال 53 ہزار بچے بھی آلودہ پانی پینے سے پیدا ہونے والی بیماریوں خصوصاً دست و اسہال کے باعث موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پانی کے ناکافی ذخائر کے علاوہ صنعتی فضلے کے دریاؤں اور دیگر آبی گزرگاہوں میں شامل ہونے سے زیر زمین پانی میں خطرناک آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔
آلودہ پانی کے علاوہ ایک مسئلہ پانی کی کمیابی کا بھی ہے اور ماہرین کے اندازوں کے مطابق 2025ء تک پاکستان کو پانی شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اسی تناظر میں ماہرین حکومتوں پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ پانی جمع کرنے کے لیے مزید ذخائر (ڈیم) بنائیں۔