اسلام آباد —
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے فرقہ واریت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی عوامی سطح پر بھی شدید مذمت کی گئی اور حکومت اور ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس سنگین اور تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر اسلام آباد میں ایک کاروباری شخصیت زاہد اقبال نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ مل کے ایک مسجد کی تعمیر کی جس میں ان کے بقول فرقے کی تفریق کے بغیر ہر کوئی نماز ادا کر سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے ہفتے کو گفتگو کرتے ہوئے زاہد اقبال کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد مختلف مسلمان فرقوں کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
’’حرمین میں تو سب ایک جگہ نماز پڑھتے۔ اپنے طریقوں سے پڑھتے ہیں۔ وہاں تو کوئی انہیں نہیں روکتا۔ تو ہم چاہتے ہیں یہ ایک ماڈل بن جائے جس کے بعد ہر کوئی اپنے مذہبی قائد کو کہے کہ ہمیں ایسی مسجد چاہیے۔ ہمیں ایسا ماحول چاہیے۔‘‘
زاہد اقبال کا کہنا تھا کہ تین کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی جامعہ مسجد قرطبہ کے لئے کسی ملک یا مذہبی یا سیاسی ادارے سے امداد حاصل نہیں کی گئی۔
’’یہاں لوگوں میں بہت جذبہ ہے۔ ہمیں تو پتہ بھی نہیں چلتا اور لوگ عطیے کی رسید کٹوا کر چلے جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ یہ کیسے ہوگیا۔‘‘
امریکی کانگرس کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 18 ماہ میں پاکستان میں مختلف مذہبی اقلیتوں پر 200 سے زائد حملے ہوئے جن میں 717 افراد ہلاک اور 11 سو زخمی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے بیشتر مہلک حملوں کا نشانہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تھے۔ کمیشن نے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے لیے اس سے نمٹنا ایک کڑا امتحان ہوگا۔
سینٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ فرقہ واریت اور شدت پسندی کے خلاف ریاستی اور معاشرتی سطح پر خاموشی کو ترک کرتے ہوئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔
’’ہمیں قومی تصور کو تبدیل کرنا ہوگا جس میں شدت پسندی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ہمیں انتہاپسندی کو ناجائز کہلوانا ہوگا۔ کالعدم تنظیمیں نئے ناموں سے آجاتی تو ریاست نے ابھی تک انتہاپسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق سنجیدگی نہیں دکھائی۔ ریاست کو یہ سنجیدگی دکھانا ہوگی۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک اور ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ تاہم اب بھی شدت پسندی کے خلاف ایک مربوط قومی پالیسی کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
نواز شریف حکومت میں شامل عہدیداروں کے بقول ایک قومی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں سیاسی قائدین سے بھی مشاورت کی جائے گی۔
اس سنگین اور تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر اسلام آباد میں ایک کاروباری شخصیت زاہد اقبال نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ مل کے ایک مسجد کی تعمیر کی جس میں ان کے بقول فرقے کی تفریق کے بغیر ہر کوئی نماز ادا کر سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے ہفتے کو گفتگو کرتے ہوئے زاہد اقبال کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد مختلف مسلمان فرقوں کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
’’حرمین میں تو سب ایک جگہ نماز پڑھتے۔ اپنے طریقوں سے پڑھتے ہیں۔ وہاں تو کوئی انہیں نہیں روکتا۔ تو ہم چاہتے ہیں یہ ایک ماڈل بن جائے جس کے بعد ہر کوئی اپنے مذہبی قائد کو کہے کہ ہمیں ایسی مسجد چاہیے۔ ہمیں ایسا ماحول چاہیے۔‘‘
زاہد اقبال کا کہنا تھا کہ تین کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی جامعہ مسجد قرطبہ کے لئے کسی ملک یا مذہبی یا سیاسی ادارے سے امداد حاصل نہیں کی گئی۔
’’یہاں لوگوں میں بہت جذبہ ہے۔ ہمیں تو پتہ بھی نہیں چلتا اور لوگ عطیے کی رسید کٹوا کر چلے جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ یہ کیسے ہوگیا۔‘‘
امریکی کانگرس کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 18 ماہ میں پاکستان میں مختلف مذہبی اقلیتوں پر 200 سے زائد حملے ہوئے جن میں 717 افراد ہلاک اور 11 سو زخمی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے بیشتر مہلک حملوں کا نشانہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تھے۔ کمیشن نے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے لیے اس سے نمٹنا ایک کڑا امتحان ہوگا۔
سینٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ فرقہ واریت اور شدت پسندی کے خلاف ریاستی اور معاشرتی سطح پر خاموشی کو ترک کرتے ہوئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔
’’ہمیں قومی تصور کو تبدیل کرنا ہوگا جس میں شدت پسندی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ہمیں انتہاپسندی کو ناجائز کہلوانا ہوگا۔ کالعدم تنظیمیں نئے ناموں سے آجاتی تو ریاست نے ابھی تک انتہاپسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق سنجیدگی نہیں دکھائی۔ ریاست کو یہ سنجیدگی دکھانا ہوگی۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک اور ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ تاہم اب بھی شدت پسندی کے خلاف ایک مربوط قومی پالیسی کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
نواز شریف حکومت میں شامل عہدیداروں کے بقول ایک قومی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں سیاسی قائدین سے بھی مشاورت کی جائے گی۔