اسلام آباد —
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کی کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جن میں زیادہ تر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
مگر حالیہ مہینوں میں ان کارروائیوں کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی اور صوبہ پنجاب بھی اس بار اس کا ہدف رہا۔
نواز شریف حکومت میں شامل اعلیٰ عہدیدار ان واقعات کو ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازش قرار دیتے ہیں۔
وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ایک مسودہ قانون تیار کیا جارہا ہے جس کے ذریعے تمام مذہبی جماعتوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ شدت پسندی اور فرقہ واریت کے پرچار یا اس میں ملوث افراد سے قطع تعلق کریں۔
’’ہمارے یہاں کانفرنسوں اور اجلاس میں بڑے بڑے علماء آتے اور قراردادوں پر دستخط کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں۔ تو ہم ان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ جی آپ وعدے کرکے گئے ہیں جو آپ میں سے اس کی خلاف ورزی کرتا ہیں اسے اپنے میں سے نکالیں۔ ہمارا پیغام اب تک سطحی طور پر اوپر پھررہا تھا نیچے نہیں جارہا تھا۔‘‘
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کے ایسا نا کرنے پر حکومت کی طرف سے سخت اور شدید قسم کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فتوے کا بھی استعمال غلط انداز میں ہورہا ہے جس بارے میں اقدام کرنا ناگزیر ہیں۔
’’دین کی تعلیم یا کچھ جاننے کا مطلب نہیں کہ کوئی مفتی ہوگیا ہے۔ اس کے لیے 20 سے 30 علوم پر دسترس ہونی چاہیے۔ یہاں آپ سنتے ہیں کہ 500 علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ اب پوچھا جائے تو 500 ہیں کہاں؟ ہر چیز میں مسائل ہیں۔‘‘
امین الحسنات کا کہنا تھا کہ ملک میں بدامنی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکومت کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔
’’حکومت کو کرنا چاہیے کہ جمعہ کا خطبہ بامقصد ہو۔ دوسرے اسلامی ملکوں میں یہ جائز ہے تو یہاں کیوں نہیں ہے۔ بہت مسائل کی وجہ مساجد کی بے لگام تعمیر ہے جن پر حکومت کا چیک نہیں۔ یہ چیزیں (چیک) دوسرے ملکوں میں جائز سمجھتے ہیں ہمارے یہاں ہر کوئی ہر ایک معترض ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے بھی گزشتہ روز مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو گمراہ اور دہشت گردوں کو انسانیت کے دشمن قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ انہیں ناکام بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔
مگر حالیہ مہینوں میں ان کارروائیوں کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی اور صوبہ پنجاب بھی اس بار اس کا ہدف رہا۔
نواز شریف حکومت میں شامل اعلیٰ عہدیدار ان واقعات کو ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازش قرار دیتے ہیں۔
وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ایک مسودہ قانون تیار کیا جارہا ہے جس کے ذریعے تمام مذہبی جماعتوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ شدت پسندی اور فرقہ واریت کے پرچار یا اس میں ملوث افراد سے قطع تعلق کریں۔
’’ہمارے یہاں کانفرنسوں اور اجلاس میں بڑے بڑے علماء آتے اور قراردادوں پر دستخط کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں۔ تو ہم ان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ جی آپ وعدے کرکے گئے ہیں جو آپ میں سے اس کی خلاف ورزی کرتا ہیں اسے اپنے میں سے نکالیں۔ ہمارا پیغام اب تک سطحی طور پر اوپر پھررہا تھا نیچے نہیں جارہا تھا۔‘‘
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کے ایسا نا کرنے پر حکومت کی طرف سے سخت اور شدید قسم کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فتوے کا بھی استعمال غلط انداز میں ہورہا ہے جس بارے میں اقدام کرنا ناگزیر ہیں۔
’’دین کی تعلیم یا کچھ جاننے کا مطلب نہیں کہ کوئی مفتی ہوگیا ہے۔ اس کے لیے 20 سے 30 علوم پر دسترس ہونی چاہیے۔ یہاں آپ سنتے ہیں کہ 500 علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ اب پوچھا جائے تو 500 ہیں کہاں؟ ہر چیز میں مسائل ہیں۔‘‘
امین الحسنات کا کہنا تھا کہ ملک میں بدامنی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکومت کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔
’’حکومت کو کرنا چاہیے کہ جمعہ کا خطبہ بامقصد ہو۔ دوسرے اسلامی ملکوں میں یہ جائز ہے تو یہاں کیوں نہیں ہے۔ بہت مسائل کی وجہ مساجد کی بے لگام تعمیر ہے جن پر حکومت کا چیک نہیں۔ یہ چیزیں (چیک) دوسرے ملکوں میں جائز سمجھتے ہیں ہمارے یہاں ہر کوئی ہر ایک معترض ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے بھی گزشتہ روز مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو گمراہ اور دہشت گردوں کو انسانیت کے دشمن قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ انہیں ناکام بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔