اسلام آباد —
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اُن کا ملک دنیا کے ساتھ اقتصادی و تجارتی تعاون کے فروغ سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات کا خواہاں ہے۔
اُنھوں نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اتوار کو نیو یارک روانگی سے قبل نور خان ایئر بیس راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک ’’ذمہ دار جمہوری قوم‘‘ کے رہنما کے طور پر شرکت کرنے جا رہے ہیں۔
’’ہم پرامن قوم ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری، تجارت اور اقتصادی تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ میں ترقی پذیر جمہوری پاکستان سے متعلق اپنے نظریہ کو اجاگر کروں گا جو ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔‘‘
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستانی امن پسند قوم ہیں اور اُن کی حکومت بیرونی دنیا کے ساتھ سرمایہ کاری، تجارتی اور اقتصادی تعاون کا فروغ چاہتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک رہنماؤں کو وہ اپنی حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کریں گے۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ طارق فاطمی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔
مبصرین کی رائے میں وزیرِ اعظم کا دورہِ امریکہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس کے دوران ناصرف پاکستان کی ترجیحات اور حکمتِ عملی کو اجاگر کیا جائے گا بلکہ نواز شریف کی متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔
اسلام آباد کی بڑی درس گاہ قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر نواز جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیرِ اعظم کے دورے کے دو انتہائی اہم پہلو ہیں۔
’’ایک تو وزیرِ اعظم اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں ڈرون حملوں پر روشنی ڈالیں گے، دوسری جانب وہ یہ یقین دہانی بھی کرائیں گے کہ پاکستان مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں مثبت و تعیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
ظفر جسپال نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیرِ اعظم کی اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے ملاقات کا امکان بھی موجود ہے۔
’’اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو اس کے پاک بھارت تعلقات پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
مجوزہ ملاقات کے طے ہونے سے متعلق سرکاری طور پر تاحال کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری کے مطابق نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف کی امریکہ کے صدر براک اوباما سے کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔
اُنھوں نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اتوار کو نیو یارک روانگی سے قبل نور خان ایئر بیس راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک ’’ذمہ دار جمہوری قوم‘‘ کے رہنما کے طور پر شرکت کرنے جا رہے ہیں۔
’’ہم پرامن قوم ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری، تجارت اور اقتصادی تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ میں ترقی پذیر جمہوری پاکستان سے متعلق اپنے نظریہ کو اجاگر کروں گا جو ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔‘‘
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستانی امن پسند قوم ہیں اور اُن کی حکومت بیرونی دنیا کے ساتھ سرمایہ کاری، تجارتی اور اقتصادی تعاون کا فروغ چاہتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک رہنماؤں کو وہ اپنی حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کریں گے۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ طارق فاطمی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔
مبصرین کی رائے میں وزیرِ اعظم کا دورہِ امریکہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس کے دوران ناصرف پاکستان کی ترجیحات اور حکمتِ عملی کو اجاگر کیا جائے گا بلکہ نواز شریف کی متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔
اسلام آباد کی بڑی درس گاہ قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر نواز جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیرِ اعظم کے دورے کے دو انتہائی اہم پہلو ہیں۔
’’ایک تو وزیرِ اعظم اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں ڈرون حملوں پر روشنی ڈالیں گے، دوسری جانب وہ یہ یقین دہانی بھی کرائیں گے کہ پاکستان مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں مثبت و تعیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
ظفر جسپال نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیرِ اعظم کی اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے ملاقات کا امکان بھی موجود ہے۔
’’اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو اس کے پاک بھارت تعلقات پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
مجوزہ ملاقات کے طے ہونے سے متعلق سرکاری طور پر تاحال کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری کے مطابق نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف کی امریکہ کے صدر براک اوباما سے کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔