پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا نے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے ضروری آئینی ترمیم منظور کر لی ہے جس کے بعد ترمیم کی منظوری میں تاخیر کے سبب آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد سے متعلق پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کسی حد تک کم ہو گئے ہیں۔
قومی اسمبلی پہلے ہی یہ ترمیم منظور کر چکی ہے۔
منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں ارکان نے اس بِل کی شق وار منظوری دی جس کے بعد چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ترمیم منظور کیے جانے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ 84 ارکان نے اس کے حق میں جب کہ ایک رکن نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔
ترمیم کے خلاف ووٹ دینے والے سینیٹر پاکستان مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا تھے۔
ایک سو چار نشستوں پر مشمل سینیٹ سے بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار تھی اور یہ ترمیمی بل گزشتہ ماہ سے ایوان بالا میں کبھی ارکان کی تعداد کم ہونے اور کبھی حکومت اور حزبِ مخالف کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہونے کے باعث مؤخر ہوتا آ رہا تھا۔
بِل کی منظوری کے بعد قائدِ ایوان راجہ ظفر الحق نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم جمہوریت اور ملک کو درپیش مختلف خطرات سے بچنے کے لیے یہ ضروری تھی اور وہ ایوان کو یقین دلاتے ہیں کہ اس کی منظوری کے لیے حزبِ مخالف کے رہنماؤں کے وزیرِ اعظم کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں طے پانے والے تمام نکات پر من و عن عمل درآمد کیا جائے گا۔
راجہ ظفر الحق نے کہا، "یہ صرف حکومت یا حزبِ مخالف کی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ پوری قوم کے لیے ایک ایسا مرحلہ تھا کہ اگر سارے اکٹھے نہ ہوتے تو یہ پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس پر میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔"
حزبِ مخالف خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی کو مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات تھے اور اس کا کہنا تھا کہ یہ تحفظات دور ہونے تک وہ اس بِل پر حکومت کی حمایت نہیں کرے گی۔
یہ ترمیم آئین کی شق 51 (5) میں کی گئی ہے جس کے تحت صوبوں کے مابین قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کی جاتی ہے اور یہ تعداد آخری مرتبہ کی جانے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ہوتی ہے۔
چونکہ ابھی تک رواں برس ہونے والی مردم شماری کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں لہذا عبوری نتائج کے مطابق ہی حلقہ بندیاں کرنا تھیں جس کے لیے یہ ترمیمی مسودہ پیش کیا گیا تھا۔
نئی ترمیم کے مطابق قومی اسمبلی کی عام نشستوں کی تعداد تو 272 ہی رہے گی لیکن اس میں صوبہ پنجاب سے نشستوں میں کمی جب کہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور وفاقی دارالحکومت سے نشستوں میں اضافہ ہوگا۔ سندھ اور قبائلی علاقوں سے قومی اسمبلی کے لیے نشستوں کی تعداد میں تبدیلی نہیں ہوگی۔