پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں موجود تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔
کمیٹی کے اجلاس میں اُس عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر بھی غور کیا گیا، جو کوئٹہ میں ہونے والے ایک مہلک حملے کے بعد تیار کی گئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال آٹھ اگست کو کوئٹہ کے سول اسپتال کے احاطے میں موجود وکلا کو خودکش بم حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس میں لگ بھگ 55 وکلا سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
سپریم کورٹ نے اس حملے کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسٰی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی جس نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ وفاقی وزارت اور وزیر داخلہ کی طرف سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
سینیٹ کی انسانی حقوق کے اُمور سے متعلق قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جسٹس فائز عیسٰی کی رپورٹ میں انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کے حوالے سے پائی جانے والی خامیوں کی واضح نشاندہی کی گئی ہے۔
’’جو جسٹس عیسٰی کی رپورٹ ہے، وہ یہ کہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان تو آ گیا لیکن کون اس پر عمل درآمد کروائے گا، کون جواب دہ ہو گا تو (اس حوالے سے) کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘
سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ پیر کو کمیٹی اجلاس میں شریک ممبران نے حکومت پر زور دیا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ضروری ہے۔
’’مختلف اوقات میں جو بھی چیزیں ہونی چاہیں تھیں، وہ نہیں ہوئی ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے حوالے سے جو فیصلے ہوئے تھے اگر وہ نام بدل کر کام کریں گی تو اُن کو بھی کالعدم قرار دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔ یہ تمام چیزیں ہمارے سامنے ہیں بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان پر دباؤ ہے کہ آپ اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم کریں۔‘‘
واضح رہے کہ عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اس رپورٹ کی تیاری میں اُن سے اور اُن کی وزارت سے موقف نہیں لیا گیا۔
’’میں قانونی پہلوؤں سے آگاہ نہیں لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہمارا موقف سنے بغیر ایک یکطرفہ رپورٹ کیسے سامنے آ گئی‘‘
پاکستان کے مختلف حلقوں بشمول حزب مخالف کی ایک بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر موثر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔
تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار کا موقف ہے کہ اُن کی وزارت انسداد دہشت گردی کے ان تمام نکات پر عمل درآمد کر رہی ہے جو اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
وزیر داخلہ کہتے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے سبب ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
پاکستانی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث تمام عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔