اسلام آباد —
پاکستان میں جاری انتخابی عمل کے دوران سلامتی سے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات پر عمومی طور پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور اب ایسی ہی بازگشت پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھی سننے میں آئی ہے۔
منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں نگراں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے قانون سازوں کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود سیاسی رہنماؤں، ان کی جماعتوں کے امیدواروں اور کارکنوں کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اور موثر اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ اس بارے میں وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن ایک دوسرے پر ذمہ داری ہی عائد کرنے میں مصروف ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر زاہد خان نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں پر شدت پسندوں کے حملے اور ان کے خلاف اقدامات نا کرنا آزاد خیال اور جمہوریت پسند قوتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنا اور من پسند لوگوں کو پارلیمنٹ میں لانے کی سازش ہے۔
’’پروٹوکول تو آپ نے اس آمر کو دی جس نے آئین کو توڑا، جو سیاست دانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ الیکشن کمیشن اور عدالت اعظمیٰ اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتے؟ سیاست دانوں سے سکیورٹی واپس لی جاتی ہے جب کہ ہم سب سے زیادہ شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔‘‘
الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے پاکستان مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف اور ان کے بھائی سے اضافی سکیورٹی واپس لینے کے احکامات جاری کیے اور سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے سابق وزارئے اعظم راجا پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کو دی گئی غیر معمولی سکیورٹی اور دیگر مراعات کا نوٹس بھی لیا تھا۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں اور امیدواروں پر انتخابات کے دوران حملے کرنے کی پہلے ہی دھمکیاں دے چکی ہے۔
تاہم عوامی نیشنل پارٹی کے قانون ساز کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے کارکن اور امیدوار تمام تر سکیورٹی خدشات کے باوجود انتخابات میں بھر پور طریقے سے حصہ لیں گے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں تنبیہہ کی کہ اگر بلوچستان میں انتخابات شفاف نا ہوئے تو وہاں حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔
’’تمام قوم پرست انتخابی عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ کمیشن کو ان کے جائز خدشات کو حل کرنا چاہئے کیونکہ اگر بلوچستان میں الیکشن کی جگہ سلیکشن کرنے کی کوشش کی گئی جیسے ماضی میں کی گئی تھی تو بلوچستان کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید خراب ہوگا۔‘‘‘
نگراں وزیر داخلہ ملک حبیب خاں نے ایوان بالا میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سکیورٹی فراہم کرنے سے متعلق اسٹبلشمنٹ یا کسی ادارے کی جانب سے مداخلت نہیں کی جارہی اور کسی خوف کے بغیر تمام جماعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
’’اس صورتحال میں خطرات تو ہوتے ہیں۔ مگر ہم ان کا نوٹس لے رہے ہیں۔ سکیورٹی کے اعتبار سے حساس علاقوں اور شخصیات کی درجہ بندی کرکے معلومات متعلقہ حکام کو بھیجوا دی ہے اور وہ اس پر عمل کریں گے۔‘‘
ملک حبیب خان نے بتایا کہ حکومت کی اولین ترجیح شفاف اور محفوظ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مشاورت کا عمل شروع کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ کے پارلیمنٹ میں بیان کے چند ہی گھنٹوں کے بعد بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سربراہ کے قافلے پر بم حملہ ہوا جس میں وہ تو بال بال بچ گئے تاہم ان کے بیٹے سمیت تیں افراد ہلاک ہوئے۔
منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں نگراں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے قانون سازوں کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود سیاسی رہنماؤں، ان کی جماعتوں کے امیدواروں اور کارکنوں کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اور موثر اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ اس بارے میں وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن ایک دوسرے پر ذمہ داری ہی عائد کرنے میں مصروف ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر زاہد خان نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں پر شدت پسندوں کے حملے اور ان کے خلاف اقدامات نا کرنا آزاد خیال اور جمہوریت پسند قوتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنا اور من پسند لوگوں کو پارلیمنٹ میں لانے کی سازش ہے۔
’’پروٹوکول تو آپ نے اس آمر کو دی جس نے آئین کو توڑا، جو سیاست دانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ الیکشن کمیشن اور عدالت اعظمیٰ اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتے؟ سیاست دانوں سے سکیورٹی واپس لی جاتی ہے جب کہ ہم سب سے زیادہ شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔‘‘
الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے پاکستان مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف اور ان کے بھائی سے اضافی سکیورٹی واپس لینے کے احکامات جاری کیے اور سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے سابق وزارئے اعظم راجا پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کو دی گئی غیر معمولی سکیورٹی اور دیگر مراعات کا نوٹس بھی لیا تھا۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں اور امیدواروں پر انتخابات کے دوران حملے کرنے کی پہلے ہی دھمکیاں دے چکی ہے۔
تاہم عوامی نیشنل پارٹی کے قانون ساز کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے کارکن اور امیدوار تمام تر سکیورٹی خدشات کے باوجود انتخابات میں بھر پور طریقے سے حصہ لیں گے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں تنبیہہ کی کہ اگر بلوچستان میں انتخابات شفاف نا ہوئے تو وہاں حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔
’’تمام قوم پرست انتخابی عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ کمیشن کو ان کے جائز خدشات کو حل کرنا چاہئے کیونکہ اگر بلوچستان میں الیکشن کی جگہ سلیکشن کرنے کی کوشش کی گئی جیسے ماضی میں کی گئی تھی تو بلوچستان کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید خراب ہوگا۔‘‘‘
نگراں وزیر داخلہ ملک حبیب خاں نے ایوان بالا میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سکیورٹی فراہم کرنے سے متعلق اسٹبلشمنٹ یا کسی ادارے کی جانب سے مداخلت نہیں کی جارہی اور کسی خوف کے بغیر تمام جماعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
’’اس صورتحال میں خطرات تو ہوتے ہیں۔ مگر ہم ان کا نوٹس لے رہے ہیں۔ سکیورٹی کے اعتبار سے حساس علاقوں اور شخصیات کی درجہ بندی کرکے معلومات متعلقہ حکام کو بھیجوا دی ہے اور وہ اس پر عمل کریں گے۔‘‘
ملک حبیب خان نے بتایا کہ حکومت کی اولین ترجیح شفاف اور محفوظ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مشاورت کا عمل شروع کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ کے پارلیمنٹ میں بیان کے چند ہی گھنٹوں کے بعد بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سربراہ کے قافلے پر بم حملہ ہوا جس میں وہ تو بال بال بچ گئے تاہم ان کے بیٹے سمیت تیں افراد ہلاک ہوئے۔