شام ہوتے ہی کراچی کے بیشتر ریستورانوں میں جو منظر اب عام نظر آتا ہے وہ یاروں دوستوں کا مل بیٹھ کر شیشہ پینا ہے ۔ کہیں محض تفریح تو کہیں اسٹیٹس سمبل کے طور پر اپنائے گئے اس رواج نے بہت تیزی سے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے مگر یہ کتنا خطر ناک ہے معاشرہ بظاہر اس سے واقف نہیں ۔
سندھ اسمبلی نے رواں ہفتے عوامی مقامات پر شیشہ کے استعمال پر پابندی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ یہ قرارداد پیپلز پارٹی کے رکن سید بچل شاہ نے پیش کی اور ان کا موقف تھا کہ شیشہ نشہ کی بدترین قسم ہے جسے کراچی کے فائیو سٹار ہوٹلوں سمیت سندھ بھر کے دیگر ریستوران مختلف ذائقوں میں فراہم کر رہے ہیں اوراس مہلک چیز کو نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی استعمال کر رہی ہیں۔
پروفیسر جاوید احمد خان آغا خان یونیورسٹی میں شعبہ ادویات کے سربراہ اور پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ہیں۔ کراچی کی چار اہم جامعات کے طلبا کی مدد سے شیشے کے استعمال پر ان کے ایک سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ تین سال قبل یہاں مردوں میں اس کا تناسب 43 فیصد اور لڑکیو ں میں گیارہ فیصد تھا۔ وہ کہتے ہیں ” اب اگر یہ سروے کیا جائے تو یہ تناسب کہیں زیادہ ہوگا ، تیزی سے ریستوران کھلے ہیں اور ان کے مینیو میں شیشہ کا اضافہ ہوا ہے“۔ان کے بقول ایسے میں ایوانوں میں صحت کے مسئلہ پر بحث ہونا اور معاشرے کو تباہی کی طرف لے جانے والی چیزوں پر پابندی کی بات ایک خوش آئند امر ہے۔
شیشہ ہے کیا ؟ پاکستان میں شیشہ کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ اس میں مختلف پھلوں کے ذائقے کا استعمال ہے اس لیے یہ صحت کے لیے نقصان دہ نہیں لیکن پروفیسر جاوید کہتے ہیں کہ شیشہ ذائقہ دار تمباکو کا نام ہے جو حقہ کے ذریعہ پیا جاتا ہے۔ ان کے بقول ” ظاہر ہے کہ پھلوں کے ذائقہ سے تو کوئی عادی نہیں ہوگا۔تمباکو کا استعمال ہے اسی لیے لوگ عادی ہوجاتے ہیں۔“ کچھ لوگوں نے خرید کر اسے گھر پر رکھ لیا ہے جہاں روزانہ اس کا استعمال ہوتا ہے۔ “
پاکستان میں عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت سے متعلق قانون موجود ہے ۔چونکہ شیشہ میں تمباکو ہوتاہے اس لیے یہ قرارداد اس قانون کی حمایت کرتی ہے۔
مائر رحمان کراچی کے ایک بڑے ادارے میں زیرِ تعلیم ہیں۔شہر کہ پوش علاقے میں واقع ریستوران میں دوستوں کے ساتھ شیشہ پیتے ہوئے انھوں نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ ” حکومت کو جو کام کرنا چائیے وہ کرتی نہیں بس شیشہ پر پابندی لگا کر ایک تفریح ختم کر رہی ہے۔ شیشہ سے زیادہ نقصان دہ نشہ آور اشیاء کا استعمال لوگ کرتے ہیں حکومت پہلے ان پر پابندی لگائے۔ “ ان کے دوست راہول اعجاز نے بتایا کہ وہ پیتے نہیں مگر کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ آجاتے ہیں ۔ راہول کے نزدیک پابندی کا صحیح فیصلہ ہوگا لیکن حکومت پہلے بڑے مسائل کا سوچے۔
عالمی ادارہ صحت کی 2008 ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ شیشہ کا استعمال سو سگریٹس پینے کے برابر ہے ۔اس میں تمباکو کے علاوہ کاربن مونو آسائیڈ ، آرسینک اور دیگر خطرناک کیمیائی مادوں کا استعمال ہوتا ہے۔ پروفیسر جاوید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صرف کاربن مونوآکسائیڈ ہی جسم میں آکسیجن کو جلا کراہم اعضاء میں سما جاتی ہے جس سے دل کی بیماریاں، پھیپھڑوں کا سرطان اور مختلف سانس کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جں انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ وہ کہتے ہیں حکومت بیرونی فضائی آلودگی پر تو کام کر رہی ہے لیکن اندرونی فضائی آلودگی کس حد تک سنگین ہے اس کا اسے اندازہ نہیں۔
” ابھی ہماری ایک تحقیق شائع ہونے والی ہے جس میں ہم نے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور رواپنڈی کے ریستورانوں میں تمباکو کے دھویں سے پیدا ہونے والی آلودگی کو ایک مشین کے ذریعے جانچا ہے۔ جن ہوٹلوں میں شیشہ پیا جا رہا تھا وہاں آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت کی 2.5 کی جو حد ہے اس سے کئی ہزار گنازیادہ تھی ۔ تو جو لوگ پی رہے ہیں وہ اپنا تو نقصان کر رہے ہیں لیکن وہاں نہ پینے والے لوگ انجانے میں زہر اپنے پھیپھڑوں میں لے جارہے ہیں۔“
پروفیسر جاوید نے بتایا کہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ملک کی تقریباً50 فیصد آبادی سگریٹ، نسوار ،گٹکا، پان، شیشہ غرض کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کر رہی ہے۔پاکستان میں تمباکے استعمال کو برا تصور کیا جاتا ہے لیکن شیشہ کی صورت میں تمباکو کو ملنے والی سماجی قبولیت ماہرین صحتِ و سماجیات سمیت ہر ذمہ دار فرد کے لیے پریشان کن ہے۔ پروفیسر جاوید کہتے ہیں کہ ” مسلم اور مشرقی معاشروں میں خواتین کا سگریٹ پینا اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن جب سے شیشہ آیا ہے خواتین میں بھی اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ “
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال ایک لاکھ افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر جاویدکہتے ہیں کہ شیشہ دوسری نشہ آور اشیا کی طرف پہلا قدم ہے۔” ہم نے ایک تحقیق کی اور یہ جانا کہ جو لوگ شیشہ پیتے ہیں ان میں تمباکو کی دوسری اقسام کے استعمال کی شرح بڑھ جاتی ہے اس لیے سنجیدگی سے اس مسئلہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگرہم نے اسے نہ روکا تو اس کے اثرات اگلے دس بیس سالوں میں سرطان ، سانس اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کی صورت میں نمایاں ہوں گے۔“