پاکستان نے افغان قیادت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ افغان قومی سلامتی کے مشیر کے پاکستان سے متعلق حال ہی میں دیے جانے والے بیان کے بعد ان کے ساتھ سرکاری امور پر رابطہ نہیں کرے گا۔
جنوب ایشیائی ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تنازع افغان صدر اشرف غنی کے مقرر کردہ قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کے ایک بیان کے بعد کھڑا ہوا جو عمومی طور پر پاکستان اور اس کی اعلیٰ ترین خفیہ ادارے پر طالبان کی حمایت اور افغانستان میں شورش پیدا کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ جب کہ اسلام آباد کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔
حالیہ تنازعے نے لگ بھگ 2600 کلو میٹر کی مشترکہ سرحد رکھنے والے ہمسایہ ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی اور عدم اعتماد کو ایک بار پھر سے اجاگر کیا ہے۔
پاکستان کی سرحد سے متصل افغان صوبے ننگر ہار میں رواں ماہ کیے جانے والے عوامی خطاب میں حمد اللہ محب نے پاکستان کے خلاف الزامات کو دہرایا۔
حمد اللہ محب کے اس بیان پر اسلام آباد کی قیادت کی طرف سے سخت ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ افغان قومی سلامتی کے مشیر نے ریاستوں کے درمیان گفتگو کے آداب کو پامال کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی طرف سے حمد اللہ محب کے دفتر سے مؤقف کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم ان کی طرف سے فوری جواب نہیں دیا گیا۔
اس تنازع سے آگاہ ایک پاکستانی اعلیٰ سرکاری افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان سے سخت احتجاج اور گہری ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
افسر کے مطابق اسلام آباد نے کابل کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان، افغان قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ دو طرفہ امور میں حصہ نہیں لے گا۔
اعلیٰ افسر کے مطابق افغان حکومت کو یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ افغان حکام، پاکستان کے ساتھ معاملات چلانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان پاکستان پر صرف الزامات لگا رہا ہے اور پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو فراموش کر رہا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے رواں ماہ میں کیے جانے والے کابل کے دورے کے دوران افغان صدر کے ساتھ ملاقات میں اس تنازع کو بھی اٹھایا تھا جس میں برطانیہ کے دفاعی چیف نک کارٹر بھی موجود تھے۔
اس کے بعد بھی افغان حکام پاکستان پر طالبان کی پر تشدد کارروائیوں میں پشت پناہی کے الزمات لگائے جاتے رہے ہیں۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد طالبان کو مذاکرات کے لیے راضی کرنے پر اسلام آباد کی کوششوں کے متعرف رہے ہیں۔