پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں غیر معیاری کھانا کھانے سے اسہال کا شکار ہونے والے لگ بھگ 185 بچوں کو سب سے بڑے سرکاری اسپتال "پمز" منتقل کیا گیا جہاں ان کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
ان بچوں کا تعلق پاکستان بیت المال کی سرپرستی میں چلنے والے بے سہارا و یتیم بچوں کی نگہداشت کے ادارے 'سویٹ ہوم' سے ہے۔
پاکستان بیت المال کے سربراہ عابد وحید شیخ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اتوار کی صبح بچوں نے ناشتہ جس کے بعد ان کی طبیعت اچانک خراب ہونے پر انہیں پمز اسپتال منتقل کیا گیا۔
" وہ بچے جنہوں نے روزہ نہیں رکھا تھا روٹین کے مطابق انہوں نے صبح کا ناشتہ کیا۔ انہوں نے کچھ ایسی غذا کھالی جس سے ان کی طبیعت خراب ہو گئی وہ 300 میں سے کوئی 60 کے قریب بچے ہیں۔ جن کی طبیعت خراب ہو گئی۔"
انھوں نے کہا کہ بچوں کی طبعیت بظاہر خراب غذا کھانے سے ہوئی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اس کی اصل وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کی جائیں گی۔
پمز اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ نے وائس آٓف امریکہ کو بتایا کہ بچوں کو اسہال، بخار اور پانی کی کمی کی علامات کے ساتھ اسپتال لایا گیا تھا تاہم ان میں سے 130 بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ موسم میں خوراک کے استعمال میں ذرا سی غفلت انسان کو بیمار کر سکتی ہے لہذا لوگوں کو چاہیئے کہ وہ کھانے پینے میں زیادہ احتیاط کریں۔
" یہ مرض ایسا ہے کہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے آلودہ پانی اور آلودہ خوراک اس کی بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ مکھیاں جب آلودہ پانی اور گندگی پر بیٹھتی ہیں تو اپنے پروں پر گندگی چپکا لیتی ہیں جب کھلے پانی اور کھانے پر بیٹھتی ہیں تو ان کے پروں سے گندگی ان میں شامل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جو لوگ ہاتھ صاف نہیں کرتے اور پانی ابال کر نہیں پیتے ان میں جراثیم شامل ہو جاتے ہیں اور جتنی دیر کھانا باہر پڑا رہتا ہے اس میں بڑی تیزی سے جراثیم پرورش پاتے ہیں اور جو شخص یہ کھانا کھاتا ہے وہ معدے اور آنتوں کی سوزش اور اسہال کا شکار ہو جاتا ہے"۔
پاکستان کو حالیہ ہفتوں میں شدید گرم موسم کا سامنا ہے اور گزشتہ ماہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 1200 سے زائد افراد لُو لگنے اور شدید گرم موسم کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے تھے۔
گزشتہ دو ماہ سے جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں گیسٹرو کے مرض کی شکایت عام ہے اور ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق صرف ان کے اسپتال گزشتہ دو ماہ کے دوران گیسٹرو سے متاثرہ لگ بھگ 9000 مریضوں کو علاج کے لیے لایا گیا۔