پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے اسلام آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرنے والے دو رکنی بینچ نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ نتائج اور مقاصد کے لیے دھرنا دینا لازم ہو گیا ہے "جتنی توڑ پھوڑ اتنے ہی اچھے نتائج ملتے ہیں۔"
بینچ میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شامل ہیں جنہوں نے میڈیا پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کی بات کے لیے "میڈیا لوگوں کو بٹھا کر گالیاں نکلواتا ہے، میڈیا کے بعض چینلز کو بند کیوں نہیں کیا جاتا۔"
کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں، ایجنسیاں کہاں ہیں، سامنے کیوں نہیں آتیں، آئی ایس آئی کہاں ہے آکر بتا دیں ہمیں کچھ نہیں پتا، اگر انہیں کچھ علم نہیں تو ہم ایجنسیوں پر خرچہ کیوں کریں،انہوں نے کہا کہ ہم فیصلہ نہ کریں تو لوگ پوچھ سکتے ہیں تنخواہ کیوں لیتے ہوں۔"
جسٹس فائر نے کہا کہ اسلامی ممالک کا حشر دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے "افغانستان، عراق اور شام جاتے جا رہے ہیں، اگر کسی سے ملک کی قدر پوچھنا ہو تو روہنگیا مسلمانوں سے پوچھیں، مفت میں آزادی ملی تو کسی کو قدر ہی نہیں، یہ سب کس کا ایجنڈ اہے، کیا ریاست پاکستان محفوظ ہے۔"
میڈیا پر شدید تنقید کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ "کیا اسلام جلاؤ گھیراؤ کا درس دیتا ہے؟۔۔۔ میڈیا کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی،میڈیا کے بعض چینلز کو بند کیوں نہیں کیا جاتا،میڈٰیا پر اسلام کی بات کیوں نہیں ہوتی۔"
انہوں نے کہا کہ ہم صرف جج نہیں پاکستان کے شہری بھی ہیں، "اس وقت ادارے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں۔"
میڈیا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ "دیکھیں کس چینل کا مالک کون ہے، ہم دیکھیں گے چینل کو پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، پیمرا اپنا کام نہیں کر رہا کیوں نہ میڈیا کو نوٹس جاری کریں، بسکٹ کے اشہتار کے پیچھے ایمان بیچا جا رہا ہے، ہم نے تمام اداروں سے تفصیلات مانگی تھیں، میڈیا مالکان کے پیچھے جائیں گے، میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔"
جسٹس عیسیٰ نے سوال کیا کہ ٹی وی چینلز کے لائسنس کیسے منسوخ ہو سکتے ہیں؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تشدد، دہشتگردی، نفرت انگیزی پھیلانے پر لائسنس منسوخ ہو سکتا ہے۔
تو اس پر جسٹس عیسیٰ نے پوچھا کہ "کیا میڈیا انتہا پسندی کو فروغ نہیں دے رہا، زبان کا استعمال ہتھیار کی طرح ہو رہا ہے، حساس ادارے کیا کر رہے ہیں، کیوں نہ میڈیا کے مالکان کو بھی طلب کریں، میڈیا اور مالکان بھی قانون کے پابند ہیں۔"
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ فوج ریاست کا حصہ ہے "آرمی اور حکومت کو بدنام نہ کیا جائے، فوج اور حکومت کو بدنام کرنے والے ملک کی خدمت نہیں کر رہے، اور پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو دیکھ لیں گے۔"
انہوں نے کہا کہ ایک چینل کا نام بتائیں جس نے اسلام کے بارے میں بتایا ہو "پیغام دیا جارہا ہے جو چاہتے ہو ڈنڈا اٹھا لو، ٹی وی والے 5 سالہ بچے سے بھی پوچھیں شاید وہ سچ بتا دے، 5 سال کا بچہ بھی گالی دینے اور ڈنڈا مارنے سے روکے گا، اسلام میں تو مسکرانا اور راستے کا پتھر اٹھانا بھی صدقہ ہے، میڈٰیا ایسا نہیں دیکھانا چاہتا تو اسے بند کردیں۔"
اس سے قبل عدالت میں پولیس اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دھرنے سے متعلق 175 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی، جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزارت داخلہ نے بتایا کہ 14 کروڑ 60 لاکھ روپے کے نقصانات ہوئے۔
جسٹس مشیرعالم نے سوال کیا کہ مظاہرین کے پاس آنسو گیس کہاں سے آئی، اسلام آباد میں اتنا اسلحہ کیسے آیا،؟ ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس کو نہ ہلاکتوں کا علم تھا نہ نقصانات کا۔
عدالت نے کیس کی سماعت کوئی تاریخ اور حکم لکھوائے بغیر ملتوی کردی اور کہا کہ عدالت کا حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔