اسلام آباد —
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے رواں ماہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر مہلک حملے سے متعلق از خود نوٹس کی منگل کو سماعت کے دوران اس بات پر زور دیا کہ حکومت اور انتظامیہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے طویل المعیاد اقدامات کرے نا کہ سرسری نوعیت کے۔
عدالت نے صوبائی حکام کو 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے اس واقعے میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کرنے اور پہلے سے زیر حراست ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت جاری کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہدایات جاری کرتے ہوئے بلوچستان پولیس اور فرنٹیئر کور کے سربراہان سے 16 فروری کے واقعے کی تحقیقات میں پیش رفت سے متعلق رپورٹ آئندہ سماعت کو طلب کر لی۔
عدالت کے طرف سے متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرنے کی ہدایت پر، حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون ساز سید ناصر علی نے کہا کہ ہزارہ برادری کو امداد نہیں بلکہ ان کی جانوں کو تحفظ چاہیئے۔
دوسری جانب وفاق اور پنجاب حکومتوں کے عہدیداروں کے درمیان فرقہ واریت میں ملوث کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی سے متعلق الزامات کا تبادلہ جاری ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صوبائی حکومت پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سیاسی انتشار پیدا ہوگا۔
’’اگر دہشت گردی کرنے والے پنجاب میں کہیں موجود ہیں تو کوئٹہ پولیس کیوں نہیں آتی اور گرفتار کرتی۔ وزیر داخلہ، بلوچستان پولیس یا کوئی عہدیدار یہاں آئے جو ملزم انہیں درکار ہے ہم ان کے حوالے کردیں گے۔ یہ تنقید محض سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے ہے۔‘‘
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو فرقہ وارانہ عسکریت پسندی میں ملوث کالعدم تنظیموں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وہاں میاں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کی حکومت سیاسی مصلحتوں کی بناء پر ان تنظمیوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔ تاہم پنجاب حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ میں شیعہ برادری پر حملہ کیسں میں انہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو طلب کر کے اس بات کا تعین کیا جائے کہ کس کی کوتاہی سے یہ واقعہ ہوا ہے۔
’’کیا میں نے لشکر جھنگوی کے بارے میں خط نہیں لکھے؟ کیا معلومات فراہم نہیں کیں؟ کیا انٹیلی جنس فراہم نہیں کی تھی؟ اس پر کارروائی پنجاب کا کام تھا اور کچھ دنوں میں شواہد بھی منظر عام پر لاؤں گا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت میں ملوث سنی کالعدم گروہ سپاہ صحابہ پاکستان کے سابق سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت کی نشاندہی پر اپنے ان ساتھیوں کے خلاف کارروائی کریں گے جو کسی پرتشدد واقعے میں ملوث ہوں۔
رحمان ملک کے مطابق مولانا لدھیانوی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
عدالت نے صوبائی حکام کو 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے اس واقعے میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کرنے اور پہلے سے زیر حراست ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت جاری کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہدایات جاری کرتے ہوئے بلوچستان پولیس اور فرنٹیئر کور کے سربراہان سے 16 فروری کے واقعے کی تحقیقات میں پیش رفت سے متعلق رپورٹ آئندہ سماعت کو طلب کر لی۔
عدالت کے طرف سے متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرنے کی ہدایت پر، حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون ساز سید ناصر علی نے کہا کہ ہزارہ برادری کو امداد نہیں بلکہ ان کی جانوں کو تحفظ چاہیئے۔
دوسری جانب وفاق اور پنجاب حکومتوں کے عہدیداروں کے درمیان فرقہ واریت میں ملوث کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی سے متعلق الزامات کا تبادلہ جاری ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صوبائی حکومت پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سیاسی انتشار پیدا ہوگا۔
’’اگر دہشت گردی کرنے والے پنجاب میں کہیں موجود ہیں تو کوئٹہ پولیس کیوں نہیں آتی اور گرفتار کرتی۔ وزیر داخلہ، بلوچستان پولیس یا کوئی عہدیدار یہاں آئے جو ملزم انہیں درکار ہے ہم ان کے حوالے کردیں گے۔ یہ تنقید محض سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے ہے۔‘‘
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو فرقہ وارانہ عسکریت پسندی میں ملوث کالعدم تنظیموں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وہاں میاں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کی حکومت سیاسی مصلحتوں کی بناء پر ان تنظمیوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔ تاہم پنجاب حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ میں شیعہ برادری پر حملہ کیسں میں انہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو طلب کر کے اس بات کا تعین کیا جائے کہ کس کی کوتاہی سے یہ واقعہ ہوا ہے۔
’’کیا میں نے لشکر جھنگوی کے بارے میں خط نہیں لکھے؟ کیا معلومات فراہم نہیں کیں؟ کیا انٹیلی جنس فراہم نہیں کی تھی؟ اس پر کارروائی پنجاب کا کام تھا اور کچھ دنوں میں شواہد بھی منظر عام پر لاؤں گا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت میں ملوث سنی کالعدم گروہ سپاہ صحابہ پاکستان کے سابق سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت کی نشاندہی پر اپنے ان ساتھیوں کے خلاف کارروائی کریں گے جو کسی پرتشدد واقعے میں ملوث ہوں۔
رحمان ملک کے مطابق مولانا لدھیانوی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔