اسلام آباد —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ میں جمعہ کی صبح نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔
پولیس حکام کے مطابق ضلع صوابی کے علاقے ٹوپی روڈ پر یہ پولیس اہلکار انسداد پولیو ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جا رہے تھے کہ موٹرسائیکل پر سوار نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
صوابی کے ضلعی پولیس افسر سجاد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد حالات معمول پر ہیں انسداد پولیو کی مہم بلا تعطل جاری رہی۔
حملہ آور موقع سے فرار ہوگئے جن کی تلاش کے لیے مقامی پولیس نے کارروائی شروع کر دی ہے۔
انسداد پولیو مہم میں شامل ٹیموں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کے بعد ان کی حفاظت پر سکیورٹی اہلکار متعین کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مشتبہ شدت پسند کی طرف سے ان ٹیموں پر حملوں کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔
30 نومبر کو بھی پشاور کے مظافاتی علاقے بڈھ بیر میں حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر معمور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کردیا تھا۔
پاکستان میں پولیو مہم ان حملوں کی وجہ سے متعدد بار تعطل کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے دو لاکھ سے زائد بچے اس موذی بیماری سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں حکومتی عہدیدار ملک کو پولیو سے پاک کرنے کے عزم کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے آئے ہیں کہ اگر اس موذی وائرس پر معینہ مدت میں قابو نہ پایا گیا تو بیرونی ممالک کی طرف سے پاکستانیوں پر سفری پابندی بھی عائد ہوسکتی ہے۔
ایک روز قبل بھارت کی طرف سے سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے ملک کا سفر کرنے والے تمام پاکستانیوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پینا ضروری ہوگا بصورت دیگر انھیں بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
پولیس حکام کے مطابق ضلع صوابی کے علاقے ٹوپی روڈ پر یہ پولیس اہلکار انسداد پولیو ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جا رہے تھے کہ موٹرسائیکل پر سوار نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
صوابی کے ضلعی پولیس افسر سجاد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد حالات معمول پر ہیں انسداد پولیو کی مہم بلا تعطل جاری رہی۔
حملہ آور موقع سے فرار ہوگئے جن کی تلاش کے لیے مقامی پولیس نے کارروائی شروع کر دی ہے۔
انسداد پولیو مہم میں شامل ٹیموں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کے بعد ان کی حفاظت پر سکیورٹی اہلکار متعین کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مشتبہ شدت پسند کی طرف سے ان ٹیموں پر حملوں کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔
30 نومبر کو بھی پشاور کے مظافاتی علاقے بڈھ بیر میں حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر معمور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کردیا تھا۔
پاکستان میں پولیو مہم ان حملوں کی وجہ سے متعدد بار تعطل کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے دو لاکھ سے زائد بچے اس موذی بیماری سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں حکومتی عہدیدار ملک کو پولیو سے پاک کرنے کے عزم کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے آئے ہیں کہ اگر اس موذی وائرس پر معینہ مدت میں قابو نہ پایا گیا تو بیرونی ممالک کی طرف سے پاکستانیوں پر سفری پابندی بھی عائد ہوسکتی ہے۔
ایک روز قبل بھارت کی طرف سے سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے ملک کا سفر کرنے والے تمام پاکستانیوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پینا ضروری ہوگا بصورت دیگر انھیں بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔