صحافیوں کی ایک بڑی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق 2014ء میں دنیا بھر میں صحافیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا گیا اور سب سے زیادہ صحافی پاکستان میں مارے گئے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کی طرف سے جاری کردہ سالانہ فہرست کے مطابق یہ ہلاکتیں شام، عراق، اور یوکرین میں جاری لڑائیوں جب کہ پاکستان اور افغانستان میں شدت پسندی کا شاخسانہ ہیں۔
تنظیم کے مطابق اس سال پاکستان میں 14 صحافی مارے گئے جب کہ فہرست میں شام 12 ہلاکتوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ افغانستان اور فلسطین میں نو، نو صحافی ہلاک ہوئے جب کہ آٹھ عراق اور یوکرین میں مارے گئے۔
اس سال دنیا بھر میں ٹارگٹڈ کلنگ، پرتشدد واقعات اور بم دھماکوں میں 118 صحافی ہلاک ہوئے جب کہ پچھلے برس یہ تعداد 105 تھی۔
تنظیم کے مطابق اس تعداد کے علاوہ 17 صحافی دیگر حادثات اور قدرتی آفات میں اپنے کام کے دوران ہلاک ہوئے۔
آئی ایف جے نے اعداد و شمار کو سلامتی سے متعلق سنگین صورتحال کو کا غماز قرار دیتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کریں۔
تنظیم کی رپورٹ میں شام اور عراق میں شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ کی طرف سے متعدد صحافیوں بشمول امریکی صحافی جیمز فولی اور اسٹیون اسکوٹلوف کا سر قلم کیے جانے کا تذکرہ بھی کیا گیا۔
آئی ایف جے کے صدر جم بوئمیلہا کا کہنا تھا کہ "صحافیوں کو درپیش غیر معمولی خطرات کے پیش نظر اب عمل کا وقت ہے، صحافیوں کو اب صرف معلومات تک رسائی روکنے کے لیے ہی نشانہ نہیں بنایا جا رہا بلکہ اب انھیں تاوان اور سیاسی مقاصد کے لیے بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔"
ادھر پاکستان میں صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ''پی ایف یو جے" نے بھی سال 2014ء کو پاکستانی صحافیوں کے لیے حالیہ برسوں کا بدترین سال قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ رواں سال صحافیوں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو ان کے کام کے دوران دفتروں اور گاڑیوں میں بھی نشانہ بنایا گیا اور صحافیوں کے خلاف تشدد کی حالیہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پی ایف یو جے کے مطابق اس سال آٹھ صحافیوں جب کہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر چھ افراد کو ہلاک کیا گیا لیکن ان میں سے کسی ایک بھی واقعے میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔
پی ایف یو جے کے سابق صدر اور سینیئر صحافی پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صحافیوں کے تحفظ میں جہاں حکومتی کارکردگی کی افادیت دکھائی نہیں دیتی وہیں میڈیا ہاؤسز کے مالکان بھی اپنے نمائندوں کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں کرتے جو کہ ایک افسوسناک امر ہے۔
حکومتی عہدیدار صحافیوں کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہتے آئے ہیں کہ صحافیوں کو کام کے لیے محفوظ اور موافق ماحول فراہم کیا جائے گا اور صحافیوں کے قتل میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے بھی موثر کوششیں کی جارہی ہیں۔