پاکستان کی نئی حکومت نے سعودی عرب کے چین پاکستان راہداری منصوبے میں تیسرے فریق کی حیثیت سے شمولیت کا اعلان واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب سی پیک کا حصہ نہیں ہو گا۔
پاکستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے مجوزہ سرمایہ کاری ایک الگ دو طرفہ سمجھوتے کے تحت کی جائے گی۔ اُنہوں نے تصدیق کی کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کا فریم ورک خالصتاً چین اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ تاہم، سعودی سرمایہ کاری سے اس کے منصوبوں کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے اور اس پر کام کی رفتار کو بھی تیز کیا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ جب پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب سی پیک کا تیسرا پارٹنر ہوگا تو وزیر منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار بھی اُن کے ساتھ موجود تھے۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ ان متضاد بیانات سے پاکستان کی نئی حکومت کی سفارتی نا پختگی کا اظہار ہوتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ 50 ارب ڈالر کا اقتصادی راہداری کا منصوبہ سی پیک دراصل خالصتاً چین اور پاکستان کے درمیان سرمایہ کاری کے منصوبوں پر مشتمل ہے۔ تاہم، اگر سی پیک کو ایک نظریے کے طور پر دیکھا جائے تو یہ تجارت کی غرض سے پاکستان کے ساحلی علاقوں کو بنیادی ڈھانچے کے ذریعے چینی صوبے سنکیانگ سے ملانے کا وسیع تر منصوبہ ہے، جس کے تحت دیگر ممالک کی طرف سے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کا امکان موجود ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں آئل سٹی بنانے کیلئے سرمایہ کاری کا مقصد یہ ہے کہ وہاں سے سعودی تیل چین کو برآمد کیا جائے۔ یوں یہ خود اپنے طور پر ایک قابل عمل سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بتایا کہ اگر ایسی برآمدات پاکستان اور چین کے درمیان آزادانہ تجارت کے سمجھوتے کے تحت کی جاتی ہیں تو یہ سی پیک کے مجموعی نظام کا حصہ ہو سکتی ہیں۔
تاہم، اگر یہ برآمدات پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کے سمجھوتے سے باہر ہوتی ہیں تو پھر پاکستان اور چین کو الگ سے سعودی عرب کے ساتھ کوئی تجارتی سمجھوتہ طے کرنا پڑے گا۔
یوں ڈاکٹر سلمان شاہ کے خیال میں پاکستان کی نئی حکومت کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے سی پیک کے منصوبوں اور مجموعی نظریے کے درمیان ایک الجھن پیدا ہو گئی ہے۔
کراچی کے ’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن‘ کی ایسوسئیٹ ڈین ڈاکٹر ہما بقائی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ بیان میں تبدیلی پاکستان کی نئی حکومت کی سفارتی کمزوری اور ناپختگی کو ظاہر کرتی ہے۔ تاہم، اُنہوں نے وضاحت کی کہ سعودی عرب کو سی پیک میں ایک سٹریٹجک پارٹنر کے بجائے سرماری کاری کے پارٹنر کے طور پر شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جسے کچھ لوگ صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ سعودی عرب سے پاکستان کے اقتصادی تعلقات اب تک محض اقتصادی امداد پر مبنی رہے ہیں اور یہ بات خوش آئند ہے کہ اب سعودی عرب پاکستان میں باقاعدہ طور پر سرمایہ کاری کرنے کا خواہاں ہے۔
اُنہوں نے اس امکان کا بھی اظہار کیا کہ شاید سعودی عرب کیلئے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے سٹریٹجک پارٹنر کی اصطلاح قابل قبول نہ ہو کیونکہ اس سے پاکستان اور چین کے باہمی تجارتی سمجھوتے کا ڈھانچہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ تاہم، چین کو غالباً سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے پارٹنر کے طور پر سامنے آنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
چین کا ایک اعلیٰ سطحی تجارتی وفد ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے جہاں وہ سعودی سرمایہ کاری کے سلسلے میں ابتدائی بات چیت کر رہا ہے۔
لگ بھگ 50 ارب ڈالر مالیت کا چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ چین کے صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہے۔