اسلام آباد —
پاکستان میں حکومت اور طالبان کی نامزد کمیٹیوں نے ملک میں امن کی منافی سرگرمیوں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات امن کی کوششوں پر انتہائی منفی اثرات ڈالیں گے۔
دونوں کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جمعہ کو اسلام آباد میں ہوا جس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے کراچی میں پولیس کی بس پر حملے کے حالیہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خلاف امن کارروائیوں کے ہوتے ہوئے امن مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
مشترکہ اعلامیہ کے مطابق حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے کہا کہ طالبان سے فوری طور پر واضح اور دو ٹوک اعلان کرنے کے لیے کہا جائے کہ وہ امن کے منافی تمام کارروائیاں کو بلا تاخیر بند کر رہے ہیں اور اس اعلان پر موثر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بات چیت کے اختتام پر میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو میں کہا کہ اُنھیں اُمید ہے کہ امن مخالف کارروائیاں روکنے سے متعلق مذاکرات کاروں کو کامیابی ہو گی۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق طالبان کے نامزد مذاکرات کاروں نے سرکاری کمیٹی کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بھی ایسی کوئی کارروائی نا کرنے کا واضح اعلان کرنا چاہیئے جس سے اشتعال پھیلے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی طرف سے طاقت کا استعمال نا کیا جائے۔
بیان کے مطابق حکومت کی کمیٹی نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ خلاف امن کارروائیوں کے موثر خاتمے کے فوراً بعد دیگر اعتماد افزا اقدامات پر پیش رفت ہو گی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بھی جمعرات کی شب کہا تھا کہ دہشت گرد حملوں سے امن مذاکرات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی اور طالبان کی نامزد کمیٹی کی تین شخصیات کے درمیان جمعہ کو یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی جب ملک میں حالیہ دہشت گرد حملوں خاص طور پر کراچی میں دو روز کے دوران سکیورٹی فورسز پر دو حملوں کے بعد امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
کراچی میں جمعرات کو پولیس کی بس پر حملے میں 12 اہلکار ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں قبول کی تھی۔
دونوں کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جمعہ کو اسلام آباد میں ہوا جس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے کراچی میں پولیس کی بس پر حملے کے حالیہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خلاف امن کارروائیوں کے ہوتے ہوئے امن مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
مشترکہ اعلامیہ کے مطابق حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے کہا کہ طالبان سے فوری طور پر واضح اور دو ٹوک اعلان کرنے کے لیے کہا جائے کہ وہ امن کے منافی تمام کارروائیاں کو بلا تاخیر بند کر رہے ہیں اور اس اعلان پر موثر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بات چیت کے اختتام پر میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو میں کہا کہ اُنھیں اُمید ہے کہ امن مخالف کارروائیاں روکنے سے متعلق مذاکرات کاروں کو کامیابی ہو گی۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق طالبان کے نامزد مذاکرات کاروں نے سرکاری کمیٹی کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بھی ایسی کوئی کارروائی نا کرنے کا واضح اعلان کرنا چاہیئے جس سے اشتعال پھیلے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی طرف سے طاقت کا استعمال نا کیا جائے۔
بیان کے مطابق حکومت کی کمیٹی نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ خلاف امن کارروائیوں کے موثر خاتمے کے فوراً بعد دیگر اعتماد افزا اقدامات پر پیش رفت ہو گی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بھی جمعرات کی شب کہا تھا کہ دہشت گرد حملوں سے امن مذاکرات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی اور طالبان کی نامزد کمیٹی کی تین شخصیات کے درمیان جمعہ کو یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی جب ملک میں حالیہ دہشت گرد حملوں خاص طور پر کراچی میں دو روز کے دوران سکیورٹی فورسز پر دو حملوں کے بعد امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
کراچی میں جمعرات کو پولیس کی بس پر حملے میں 12 اہلکار ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں قبول کی تھی۔