رسائی کے لنکس

نواز، اوباما ملاقات کے بعد طالبان سے مذاکرات پر ابہام دور ہوگا، مبصرین


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی کی صورت میں بھی امریکہ کو اعتماد میں لینا ضروری ہوگا کیونکہ ان کے بقول پاکستان کی سلامتی کو اس سے مزید خطرے میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔

امریکہ جاتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے برطانیہ میں اپنے عارضی قیام کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں ملک میں ہونے والے مہلک حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شدت پسندوں پر زور دیا کہ وہ مذاکرات سے متعلق اب سنجیدہ رویہ اپنائیں۔

’’بیچ میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ واقعات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پھر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ پھر اعتماد متزلزل ہوتا ہے تو میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں دوسری طرف کو اس پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی طرف سے اب ڈائیلاگ کو آگے لے جانے کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ملاقاتوں میں امریکہ کی طرف سے افغانستان سے متصل پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے بارے میں بھی ’’بڑے واضح انداز‘‘ میں بات چیت کریں گے۔

حکومت کی طرف سے پاکستانی طالبان سے بات چیت کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کے اعادے کے باوجود گزشتہ چند ہفتوں سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں تشدد کی کارروائیوں میں ایک بار پھر تیزی دیکھی گئی ہے جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ 2014 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان اور خطے میں قیام امن کے تناظر میں اسلام آباد کے پاکستانی طالبان سے مجوزہ مذاکرات امریکہ کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں اور نواز شریف کی صدر براک اوباما اور دیگر امریکی حکام سے ملاقات میں یہ موضوع زیر بحث آئے گا۔

اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ پیس اینڈ کونفلکٹ اسٹڈی کے سربراہ پروفیسر اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ مذاکراتی عمل نتیجہ خیز اور تمام فریقین کے لیے فائدہ مند ہو۔

’’مذاکرات سے متعلق حکومت تھوڑی سی سست روی دکھا رہی ہے تو اس کی شاید وجہ یہ ہو کہ وہ امریکہ کا نقطہ نظر جاننا چاہتے ہیں۔ تو جب دونوں رہنما آمنے سامنے بیٹھیں گے تو یہ بات سامنے آجائے گی کہ کس حد تک اس عمل کی رفتار کو بڑھایا جائے یا صرف عسکری کارروائی ہی آپشن ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ فوجی کارروائی کی صورت میں بھی امریکہ کو اعتماد میں لینا ضروری ہوگا کیونکہ ان کے بقول پاکستان کی سلامتی کو اس سے مزید خطرے میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے القاعدہ سے منسلک جنگجو افغانستان میں شدت پسندانہ کارروائیاں کرتے ہوئے قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ اسلام آباد افغانستان میں کسی قسم کا سیاسی خلاء نہیں چاہتا۔

’’ہم چاہتے ہیں کہ وہاں پر افغانستان، پاکستان، امریکہ اور دیگر فریقین کی آپس میں اتنی ہم آہنگی ہو کہ (غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد) کوئی خلاء نا پیدا ہو اور اسی لیے افغان مفاہتی عمل پر زور دیا جاتا ہے۔‘‘

ادھر صدر مملکت ممنون حسین نے کراچی میں صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم اپنے دورہ امریکہ میں اوباما انتظامیہ سے تجارتی شعبے میں زیادہ مراعات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق واشگٹن پاکستان کے لیے ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی امداد کی بحالی کا ارادہ رکھتا ہے۔
XS
SM
MD
LG