اسلام آباد —
طالبان کے نامزدکردہ ایک مذاکرات کار پروفیسر محمد ابراہیم نے مذاکراتی عمل کو کٹھن قرار دیتے ہوئے کہا کہ شدت پسندوں کو حکومت کے مطالبے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ ہی اس وقت ان کی اولین ترجیح ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کی سیاسی شوریٰ کو نواز شریف حکومت کی طرف سے بنیادی مطالبہ پہنچا دیا گیا ہے کہ بات چیت جاری رکھنے کے لیے عسکریت پسندوں کو اپنی کارروائیاں روکنا ہوں گی۔
’’اصل میں سارے امور پر بات ہورہی ہے اور ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہی مذاکرات بھی ہیں۔ یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ دونوں طرف سے ہمارا رابطہ ہے۔ اصل مٰیں جنگ بندی کا اعلان ہوگا تو دونوں طرف سے ہو گا۔‘‘
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے تاہم مذاکرات یا حکومت کے مطالبے پر عسکریت پسندوں کو آمادہ کرنے سے متعلق مشکلات کے بارے میں بتانے سے گریز کیا۔
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے شدت پسندوں سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان کے بعد ہی سے صوبہ خیبرپختونخواہ اور کراچی میں کئی مہلک کارروائیاں دیکھنے میں آئیں۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ان سے لاتعلقی کا دعویٰ کیا۔
تاہم جمعرات کو کراچی میں پولیس وین پر حملے میں 13 اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرتے ہوئے مزید ایسی کارروائیوں کی دھمکی دی تھی۔
جس پر حکومت نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ شدت پسند ایسی کارروائیاں روکیں۔
سرکاری مذاکراتی ٹیم کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ان کی کمیٹی طالبان کو حکومت کے برابر حیثیت نہیں دیتی جس کے باعث ’’جنگ بندی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔
’’ایک طرف حکومت ہے، ریاست ہے اور ایک طرف طالبان کا گروہ ہے۔ یہ اس طرح کا سیزفائر نہیں جو جنگوں میں ہوتا ہے۔ ہم پشتو میں اسے ’تیگا‘ کہتے ہیں کہ آپ عارضی طور پر فائر بندی کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسند پہلے فائر بندی کا اعلان کریں کیونکہ ’’فوج ہمیشہ ان کے حملوں کے جواب میں کارروائی کرتی ہے‘‘۔
مقامی ذرائع کے مطابق طالبان کی سیاسی شوریٰ کا شمالی وزیرستان میں ایک نا معلوم مقام پر اجلاس ہوا جس میں حکومت کے مطالبے پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں ہونے والے کسی بھی فیصلے کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ تاہم چند مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق طالبان نے کارروائیاں روکنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ فائر بندی کے معاہدے سے شدت پسندوں کی کارروائیوں میں کمی ممکن ہے اگر بالکل ختم نا بھی ہوں تو۔
’’ہم سب سے بڑے گروہ سے بات چیت اس امید سے کررہے ہیں کہ اگر اس سے کوئی معاملات طے ہوئے تو اس کا اثر پڑے گا اور چھوٹے گروہ اتنی آزادی سے کارروائیاں نہیں کر پائیں گے اور پھر حکومت اور طالبان بھی کوشش کریں گے اور ان ہاتھوں کو روکیں گے جو ایسی کارروائیوں سے معاہدے کو نقصان پہچاتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے ایسے گروہ بھی ہیں جو کہ اس مزاکراتی عمل کے مخالف ہیں۔
ماضی میں بھی شدت پسندوں کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کیے گئے جو کہ زیادہ دیر پا ثابت نا ہوئے اور معاہدوں کی خلاف ورزیوں پر اس وقت کی حکومتوں کو ملک کے شمال مغربی حصے میں فوجی کارروائیاں کرنا پڑیں۔
دریں اثناء اتوار کو شام گئے سرکاری مذاکراتی ٹیم کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف سے ملقات کی جس میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق انھوں نے وزیراعظم کو شدت پسندوں سے بات چیت سے متعلق صورتحال سے آگاہ کیا۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کی سیاسی شوریٰ کو نواز شریف حکومت کی طرف سے بنیادی مطالبہ پہنچا دیا گیا ہے کہ بات چیت جاری رکھنے کے لیے عسکریت پسندوں کو اپنی کارروائیاں روکنا ہوں گی۔
’’اصل میں سارے امور پر بات ہورہی ہے اور ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہی مذاکرات بھی ہیں۔ یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ دونوں طرف سے ہمارا رابطہ ہے۔ اصل مٰیں جنگ بندی کا اعلان ہوگا تو دونوں طرف سے ہو گا۔‘‘
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے تاہم مذاکرات یا حکومت کے مطالبے پر عسکریت پسندوں کو آمادہ کرنے سے متعلق مشکلات کے بارے میں بتانے سے گریز کیا۔
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے شدت پسندوں سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان کے بعد ہی سے صوبہ خیبرپختونخواہ اور کراچی میں کئی مہلک کارروائیاں دیکھنے میں آئیں۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ان سے لاتعلقی کا دعویٰ کیا۔
تاہم جمعرات کو کراچی میں پولیس وین پر حملے میں 13 اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرتے ہوئے مزید ایسی کارروائیوں کی دھمکی دی تھی۔
جس پر حکومت نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ شدت پسند ایسی کارروائیاں روکیں۔
سرکاری مذاکراتی ٹیم کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ان کی کمیٹی طالبان کو حکومت کے برابر حیثیت نہیں دیتی جس کے باعث ’’جنگ بندی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔
’’ایک طرف حکومت ہے، ریاست ہے اور ایک طرف طالبان کا گروہ ہے۔ یہ اس طرح کا سیزفائر نہیں جو جنگوں میں ہوتا ہے۔ ہم پشتو میں اسے ’تیگا‘ کہتے ہیں کہ آپ عارضی طور پر فائر بندی کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسند پہلے فائر بندی کا اعلان کریں کیونکہ ’’فوج ہمیشہ ان کے حملوں کے جواب میں کارروائی کرتی ہے‘‘۔
مقامی ذرائع کے مطابق طالبان کی سیاسی شوریٰ کا شمالی وزیرستان میں ایک نا معلوم مقام پر اجلاس ہوا جس میں حکومت کے مطالبے پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں ہونے والے کسی بھی فیصلے کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ تاہم چند مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق طالبان نے کارروائیاں روکنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ فائر بندی کے معاہدے سے شدت پسندوں کی کارروائیوں میں کمی ممکن ہے اگر بالکل ختم نا بھی ہوں تو۔
’’ہم سب سے بڑے گروہ سے بات چیت اس امید سے کررہے ہیں کہ اگر اس سے کوئی معاملات طے ہوئے تو اس کا اثر پڑے گا اور چھوٹے گروہ اتنی آزادی سے کارروائیاں نہیں کر پائیں گے اور پھر حکومت اور طالبان بھی کوشش کریں گے اور ان ہاتھوں کو روکیں گے جو ایسی کارروائیوں سے معاہدے کو نقصان پہچاتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے ایسے گروہ بھی ہیں جو کہ اس مزاکراتی عمل کے مخالف ہیں۔
ماضی میں بھی شدت پسندوں کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کیے گئے جو کہ زیادہ دیر پا ثابت نا ہوئے اور معاہدوں کی خلاف ورزیوں پر اس وقت کی حکومتوں کو ملک کے شمال مغربی حصے میں فوجی کارروائیاں کرنا پڑیں۔
دریں اثناء اتوار کو شام گئے سرکاری مذاکراتی ٹیم کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف سے ملقات کی جس میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق انھوں نے وزیراعظم کو شدت پسندوں سے بات چیت سے متعلق صورتحال سے آگاہ کیا۔