پاکستان، بھارت، افغانستان اور ترکمنستان نے اس ماہ اشک آباد میں چاروں ملکوں کو ملانے والی ایک مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے پردستخط کیے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ترکمانستان میں دولت آباد کے کے ذخائرسے قدرتی گیس 1640 کلومیٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور بھارت کو فروخت کی جائےگی۔ اس پائپ لائن کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے جن حصوں سے گزرے گا وہاں ان دنوں طالبان عسکریت پسندوں کے حملے معمول کی کارروائی بن چکے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے پٹرولیم نوید قمر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان نے ترکمانستان سے بجھائی جانے والی مجوزہ گیس پائپ لائن کی حفاظت کی تمام فریقین کو یقین دہانی کرائی ہے۔
سوال :کیا افغنستان میں سلامتی کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ٹیپی کے منصوبے پر عمل در آمد مشکل نہیں ہوگا؟
جواب:ہم نے اس منصوبے کو اسی بنیاد پر آگے بڑھایا ہے کہ افغانستاں میں بھی ہم اس پائپ لائن کو نہ صرف بچھا سکیں بلکہ اس کے ذریعے گیس کی ترسیل کو بھی یقینی بنا سکیں۔ حکومت افغانستان نے یہ یقین دلایا ہے کہ اس مجوزہ پائپ لائن کی حفاظت کے لیے پانچ ہزار فوجی تعینات کریں گے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جو دوسرے فریقین ہیں ان سے بھی ہم یہ ضمانت طلب کریں گے اور انھیں بھی اس پورے عمل میں شامل کیا جائے گا تاکہ اس پائپ لائن کو بچھانے کو یقینی بنایا جاسکے۔
سوال: گیس کی ترسیل کب تک آنا شروع ہو جائے گی اوریہ منصوبہ پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کو کم کرنے میں کس حد تک مدد گار ہوگا؟
جواب: اس پائپ لائن کو بچھانے کے لیے ہم نے دسمبر 2015 کی ڈیڈلائن مقرر کی ہے اور اس سے تقریباً ایک اعشاریہ تین چھ ارب کیوبک فٹ گیس یومیہ پاکستان اور اتنی ہی بھارت کو ملے گی جبکہ افغانستان کو بھی تقریباً پانچ سو ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جائے گی۔ جہاں تک توانائی کے بحران کو کم کرنے کی بات ہے تو اس کے لیے تو ہم ایک کثیر الجہتی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ہم ٹیپی پر کام کر رہے ہیں ہم ایران سے گیس درآمد کرنے کے لئے بھی کام کر رہے ہیں، ہم ایل این جی لا رہے ہیں، ہم تھر کول کو بھی ترقی دے رہے ہیں۔ تو یہ جو ہماری تمام کوششیں ہیں یہ مل کر ہمیں اس بحران پر قابو پانے میں مدد دیں گے۔
سوال:عمومی تاثر ہے کہ ٹیپی پر عمل در آمد کے بعد ایران کے ساتھ گیس کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے ؟
جواب: یہ محض لوگوں کی قیاس آرائی ہے۔