بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالنبی نے کہا ہے کہ صوبے میں بد امنی کے باعث جامعہ کے ساڑھے چارسو اساتذہ میں سے تقریباً ساٹھ نے دوسرے صوبوں میں تبادلے کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دیگر سرکاری جامعات کی طرح بلوچستان یونیورسٹی کو مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ معیار تعلیم کو برقر ار رکھنے کے لیے نئے اساتذہ کوبھرتی کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امن وامان کی خر اب صورتحال کے تناظر میں دوسرے صوبوں سے یہاں آ کر آباد ہونے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈرو خوف کی وجہ سے بلوچستان چھوڑ کر چلی گئی ہے جس کے باعث صوبے کی اس جامعہ میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی تعداد میں کمی آئی ہے ۔
اُن کے مطابق اس وقت بلوچستان یونیورسٹی میں ساڑھے چارہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بلوچستان پر رواں ماہ اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں بھی کہا تھا کہ تشدد کے واقعات میں اضافے سے بلوچستان میں تعلیم کے مستقبل کو سنگین خطرات لاحق ہیں ۔
ہیومین رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں مشتبہ مسلح جنگجوؤں نے گذشتہ تقریباََ تین سالوں کے دوران کم ازکم بائیس اساتذہ کو قتل کیا ہے ۔ 2009ء میں بلوچستان کے صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمدکو بھی ان کے گھر کے قریب فائرنگ کر کے ہلاک کردیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے کے دوسرے شہروں کے سرکاری سکولوں میں تعینات دو سو سے زائد اساتذہ نے ڈر اور خوف کے مارے اپنا تبادلہ کوئٹہ میں کرا لیا ہے ۔ تشدد کی ان کارروائیوں کا ہدف بننے والے زیادہ تر افراد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے ۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صوبے میں امن وامان کی بہتری کے لیے کالعدم بلو چ تنظیموں سے مذاکرت کے لیے بھی تیار ہے اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بلوچ رہنماؤں کو بات چیت کی دعوت بھی دی ہے۔
دریں اثناء وزیراعظم گیلانی نے رواں ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں مبینہ طور پرغیر ملکی ہاتھ ملوث ہے تاہم اُنھوں نے اس مزید وضاحت نہیں کی تھی۔